یہ حقیقت بھی خواب ہے شاید

غزل

یہ حقیقت بھی خواب ہے شاید
تشنگی بھی سراب ہے شاید

کچھ کسی کو نظر نہیں آتا
روشنی بے حساب ہے شاید

میں سزا ہوں تری خطاؤں کی
تو مرا انتخاب ہے شاید

یہ جسے ہم سکون کہتے ہیں
باعثِ اضطراب ہے شاید

اُس کا لہجہ گلاب جیسا ہے
طنز خارِ گلاب ہے شاید

ہر نئی بار اک نیا پن ہے
وہ غزل کی کتاب ہے شاید

کیا محبت اُسے بھی ہے مجھ سے
مختصر سا جواب ہے "شاید"

میں بھی محرومِ خواب ہوں احمد
وہ بھی زیرِ عتاب ہے شاید



7 تبصرے:

  1. واہ۔۔۔ بہت اعلی صاحب۔۔۔
    آپ کے روبرو نہیں ہوں ورنہ مکرر ضرور کہتا۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت شکریہ جعفر صاحب!

    کلام آپ کو پسند آیا یہ آپ کا حسنِ ذوق ہے.

    خوش رہیے.

    جواب دیںحذف کریں
  3. بہت خوبصورت غزل ہے احمد صاحب، اردو محفل پر میں داد دے چکا، لیکن پھر عرض کرونگا کہ ہر بار اس غزل کا نیا ہی لطف ہے، ایک ایک شعر لاجواب ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. وارث بھائی! یہ غزل مجھے خود بھی بہت پسند ہے. آپ کی توجہ اور رہنمائی سے خاکسار کو بہت حوصلہ رہتا ہے.

    جواب دیںحذف کریں
  5. ماشااللہ
    خوب بہت خوب۔۔۔۔۔ میں اپنا پسندیدہ شعر ڈھونڈ رہا تھا مگر ایک سے بڑھ کر ایک شعر۔۔۔۔۔۔۔ ہر شعر لاجواب ہے۔
    بہت ہی مزہ آیا پڑھ کر۔

    جواب دیںحذف کریں