غزل
یہ حقیقت بھی خواب ہے شاید
تشنگی بھی سراب ہے شاید
کچھ کسی کو نظر نہیں آتا
روشنی بے حساب ہے شاید
میں سزا ہوں تری خطاؤں کی
تو مرا انتخاب ہے شاید
یہ جسے ہم سکون کہتے ہیں
باعثِ اضطراب ہے شاید
اُس کا لہجہ گلاب جیسا ہے
طنز خارِ گلاب ہے شاید
ہر نئی بار اک نیا پن ہے
وہ غزل کی کتاب ہے شاید
کیا محبت اُسے بھی ہے مجھ سے
مختصر سا جواب ہے "شاید"
میں بھی محرومِ خواب ہوں احمد
وہ بھی زیرِ عتاب ہے شاید
یہ حقیقت بھی خواب ہے شاید
تشنگی بھی سراب ہے شاید
کچھ کسی کو نظر نہیں آتا
روشنی بے حساب ہے شاید
میں سزا ہوں تری خطاؤں کی
تو مرا انتخاب ہے شاید
یہ جسے ہم سکون کہتے ہیں
باعثِ اضطراب ہے شاید
اُس کا لہجہ گلاب جیسا ہے
طنز خارِ گلاب ہے شاید
ہر نئی بار اک نیا پن ہے
وہ غزل کی کتاب ہے شاید
کیا محبت اُسے بھی ہے مجھ سے
مختصر سا جواب ہے "شاید"
میں بھی محرومِ خواب ہوں احمد
وہ بھی زیرِ عتاب ہے شاید
تجرباتی ٹیکسٹ
جواب دیںحذف کریںواہ۔۔۔ بہت اعلی صاحب۔۔۔
جواب دیںحذف کریںآپ کے روبرو نہیں ہوں ورنہ مکرر ضرور کہتا۔۔۔
بہت شکریہ جعفر صاحب!
جواب دیںحذف کریںکلام آپ کو پسند آیا یہ آپ کا حسنِ ذوق ہے.
خوش رہیے.
بہت خوبصورت غزل ہے احمد صاحب، اردو محفل پر میں داد دے چکا، لیکن پھر عرض کرونگا کہ ہر بار اس غزل کا نیا ہی لطف ہے، ایک ایک شعر لاجواب ہے۔
جواب دیںحذف کریںوارث بھائی! یہ غزل مجھے خود بھی بہت پسند ہے. آپ کی توجہ اور رہنمائی سے خاکسار کو بہت حوصلہ رہتا ہے.
جواب دیںحذف کریںماشااللہ
جواب دیںحذف کریںخوب بہت خوب۔۔۔۔۔ میں اپنا پسندیدہ شعر ڈھونڈ رہا تھا مگر ایک سے بڑھ کر ایک شعر۔۔۔۔۔۔۔ ہر شعر لاجواب ہے۔
بہت ہی مزہ آیا پڑھ کر۔
بہت شکریہ نعمان صاحب،
جواب دیںحذف کریں۔