واجدہ تبسم کی دو خوبصورت غزلیں


واجدہ تبسم کا نام شاید آپ نے بطورِ افسانہ نگار سنا ہو لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے شعر بھی کہےہیں ۔ تاہم ان کی شاعری انٹرنیٹ پر نظر نہیں آتی۔ واجدہ تبسم اپنے زمانے کی بہت معروف افسانہ نگار رہی ہیں اور انہوں نے کئی ایک معروف افسانے رقم کیے ہیں اور وہ افسانہ نگاروں میں ایک مخصوص مزاج کے حوالے سے پہچانی جاتی ہیں۔ اُن کی کتابوں میں اترن، بند دروازے ، پھول کھلنے دو، جیسے دریا، ساتواں پھیر، اور شہر ممنوع شامل ہیں۔ ذیل میں اُن کی دو غزلیں قارئین کے ذوق کے لئے پیش کی جا رہی ہیں۔


کیسے کیسے حادثے سہتے رہے
پھر بھی ہم جیتے رہے ہنستے رہے

اس کے آ جانے کی امیدیں لیے
راستہ مڑ مڑ کے ہم تکتے رہے

وقت تو گزرا مگر کچھ اس طرح
ہم چراغوں کی طرح جلتے رہے

کتنے چہرے تھے ہمارے آس پاس
تم ہی تم دل میں مگر بستے رہے

****

یا تو مٹ جائیے یا مٹا دیجیے
کیجیے جب بھی سودا کھرا کیجیے

اب جفا کیجیے یا وفا کیجیے
آخری وقت ہے بس دعا کیجیے

اپنے چہرے سے زلفیں ہٹا دیجیے
اور پھر چاند کا سامنا کیجیے

ہر طرف پھول ہی پھول کھل جائیں گے
آپ ایسے ہی ہنستے رہا کیجیے

آپ کی یہ ہنسی جیسے گھنگھرو بجیں
اور قیامت ہے کیا یہ بتا دیجیے

واجدہ تبسم

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں