[ہفتہ ٴ غزل] ۔ زمیں پہ چل نہ سکا آسمان سے بھی گیا ۔ شاہد کبیر

غزل

زمیں پہ چل نہ سکا آسمان سے بھی گیا
کٹا کے پر کو پرندہ اُڑان سے بھی گیا

تباہ کر گئی پکے مکان کی خواہش
میں اپنے گاؤں کے کچے مکان سے بھی گیا

پرائی آگ میں جل کر بھی  کیا ملا تجھ کو
اُسے بچا نہ سکا  اپنی جان سے بھی گیا

بُھلا دیا تو بُھلانے کی انتہا کردی
وہ شخص اب مرے وہم و گمان سے بھی گیا

کسی کے ہاتھ کا نکلا ہوا وہ تیر ہوں میں
حدف کو چھو نہ سکا اور کمان سے بھی گیا

شاہد  کبیر

6 تبصرے:


  1. پرائی آگ میں جل کر بھی کیا ملا تجھ کو
    اُسے بچا نہ سکا اپنی جان سے بھی گیا


    ریختہ پہ یہ شعر اِس طرح درج ہے


    پرائی آگ میں کودا تو کیا ملا شاہدؔ
    اُسے بچا نہ سکا اپنی جان سے بھی گیا

    جواب دیںحذف کریں
  2. منفرد مضامین کی حامل بہترین غزل
    کچھ اشعار تو زبان زدِ عام ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. بارہا پڑھی ہوئی۔۔۔ اس غزل کے اشعار بہت ظالم ہین۔۔ مجھے بےحد پسند ہے۔ بہت شکریہ احمد بھائی

    جواب دیںحذف کریں
  4. بہت شکریہ بلال !

    ہم نے شاید کسی رسالے سے لی تھی یہ غزل۔ لیکن اب یاد نہیں آ رہا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. بہت شکریہ ذوالقرنین بھائی!

    آپ کے تبصروں سے لگتا ہے کہ ہفتہ غزل کی سرگرمی بالکل بے سود نہیں رہی۔ :)

    جواب دیںحذف کریں