[ہفتہ ٴ غزل] ۔ ہمیشہ آتے رہے تغیر، ورق اُلٹتا رہا زمانہ ۔ صادق القادری صادق

غزل

ہمیشہ آتے رہے تغیر، ورق اُلٹتا رہا زمانہ
کبھی فسانہ بنا حقیقت، کبھی حقیقت بنی فسانہ

غمِ محبت کو دل نے سمجھا تھا سہل، جیسے غمِ زمانہ
مگر اُٹھایا یہ بوجھ میں نے تو جُھک گیا زندگی کا شانہ

ہم اپنی روداد کیا سنائیں، کچھ اس میں ہیں واقعات ایسے
اگر کوئی دوسرا سُناتا، ہمیں سمجھتے اُسے فسانہ

نظر ہے مہر و کرم کی مجھ پر، لبوں پہ اک طنزیہ تبّسم
شکست تسلیم کی ہے اس نے مگر بہ اندازِ فاتحانہ

کسی کے جانے کے بعد صادق کچھ ایسا محسوس ہو رہا ہے
کہ ایک مرکز پہ جیسے آکر ٹھہر گئی گردشِ زمانہ

صادق القادری صادق

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں