نظم ۔ راہ مسدود ہے ۔ محمد احمد

راہ مسدود ہے 

ہر طرف کتنی چھوٹی بڑی گاڑیاں
آڑی ٹیڑھی پھنسی بیچ چوراہے پر
ڈرائیور* پان کی پیک منہ میں لئے
گالیاں دے رہے ہیں ہوا میں کسی 
دوسرے ڈرائیور کا تصوّر کیے

پان کی پیک، بس کا دھواں 
ڈرائیور کے غلاظت بھرے 
منہ سے اُگلی ہوئی گالیاں
جُز تعفّن نہیں کچھ، نہیں کچھ یہاں

نظم مفقود ہے
راہ مسدود ہے

اُس کو جانے کی جلدی تھی 
اُس نے غلط راہ لی
اُس کی جلدی کا عفریت 
کتنے ہی لوگوں کے معمول کو کھا گیا
اب سبھی گاڑیاں  
راستے میں پھنسی ہیں 
کئی ہاتھ ہارن سے چمٹے ہوئے ہیں
مگر کوئی بڑھ کر کہاں دیکھتا ہے
کہ سُلجھاؤ کا  راستہ ہے کہاں

سوچ مفقو د ہے
راہ مسدود ہے

محمد احمدؔ

نوٹ: انگریزی لفظ ڈرائیور کو فاعلن کے وزن پر باندھا گیا ہے  جو اپنے اصل تلفظ سے زیادہ قریب ہے۔ 


غزل ۔ دل کی بساط کیا تھی نگاہ جمال میں ۔ سیماب اکبر آبادی

غزل

دل کی بساط کیا تھی نگاہ جمال میں
اک آئینہ تھا ٹوٹ گیا دیکھ بھال میں

دنیا کرے تلاش نیا جام جم کوئی
اس کی جگہ نہیں مرے جام سفال میں

آزردہ اس قدر ہوں سراب خیال سے
جی چاہتا ہے تم بھی نہ آؤ خیال میں

دنیا ہے خواب حاصل دنیا خیال ہے
انسان خواب دیکھ رہا ہے خیال میں

اہل چمن ہمیں نہ اسیروں کا طعن دیں
وہ خوش ہیں اپنے حال میں ہم اپنی چال میں

سیمابؔ اجتہاد ہے حسن طلب مرا
ترمیم چاہتا ہوں مذاق جمال میں

سیمابؔ اکبر آبادی

نئے چراغ جلاؤ کہ روشنی کم ہے ۔۔۔ شاہد صدیقی

غزل

یہ کیا ستم ہے کہ ، احساسِ درد بھی کم ہے
شبِ فراق ستاروں میں روشنی کم ہے

اک ایسی موجِ کرم تھی نگاہِ ساقی میں
کہ اس کے بعد سے طوفانِ تشنگی کم ہے

قریب و دور سے آتی ہے آپ کی آواز
کبھی بہت ہے، غمِ جستجو ، کبھی کم ہے

عروجِ ماہ کو انساں سمجھ گیا لیکن
ہنوز عظمتِ انساں سے آگہی کم ہے

تمام عمر ترا انتظار کرلیں گے
مگر یہ رنج رہے گا کہ زندگی کم ہے

نہ ساتھ دیں گی یہ دم توڑتی ہوئی شمعیں
نئے چراغ جلاؤ کہ روشنی کم ہے

شاہد صدیقی
حیدر آباد۔ ہندوستان 
1911 ~ 1962ء

بشکریہ صابر علی سیوانی




ارے! خواب تو دیکھ

غزل

دن بھلے جیسا کٹے، سانجھ سمے خواب تو دیکھ
چھوڑ تعبیر کے خدشوں کو، ارے! خواب تو دیکھ

جھونپڑی میں ہی بنا اپنے خیالوں کا محل
گو پُرانا ہے بچھونا !تُو نئے خواب تو دیکھ

تیرا ہر خواب مسّرت کی بشارت لائے
سچ ترے خواب ہوں اللہ کرے، خواب تو دیکھ

دل شکستہ میں ہوا، جب بھی مِرا دل ٹوٹا
حوصلے آگے بڑھے، کہنے لگے، خواب تو دیکھ

تجھے وہ بات بھی آئے گی سمجھ یار مرے
جو ہے ادراک کی سرحد سے پرے، خواب تو دیکھ

گتھیاں ساری سُلجھ جائیں کہ ہوں اور سِوا
تو ذرا ہاتھ بڑھا، تھام سِرے، خواب تو دیکھ

نیند کے خواب ترے خوف کے گھر ہیں بھی تو کیا
نیند کو چھوڑ تو جب صبح اُٹھے خواب تو دیکھ

محمد احمدؔ


انتخابِ نثر ۔۔۔ گر تو می خواہی کہ باشی خوش نویس​

گر تو می خواہی کہ باشی خوش نویس​

ایک فارسی شعر ہے
گر تو می خواہی کہ باشی خوش نویس
می نویس و می نویس و می نویس
(اگر تو چاہتا ہے کہ اچھا لکھنے والا بن جائے تو لکھتا رہ، لکھتا رہ لکھتا رہ)​

یہ شعر اگرچہ خطاطی کی مشق کے زمرے میں نقل کیا جاتا ہے مگر آج میں اس کے ایک اور پہلو پر لکھنے کی جسارت کروں گا۔میں اس شعر میں خوش نویس کو خطاط کے معنوں میں نہیں بلکہ مصنف کے معنوں میں لیتا ہوں اور اسی نسبت سے چند گزارشات پیش کروں گا۔

آج کے انٹرنیٹ کے دور میں آپ کوئی بھی کام کرنا چاہتے ہیں تو گوگل پر جائیں اور اپنا مطلوبہ کام لکھیں۔اس کے لیے آپ کو مواد مطالعہ، ٹیٹوریل اور یہاں تک کہ قدم بہ قدم رہنمائی کی دستاویزات کی ایک لمبی فہرست مل جائے گی۔ اور اگر آپ لگن اور محنت کا حوصلہ رکھتے ہیں تو آپ چاہے اس کام میں مہارت حاصل نہ بھی کر سکیں بہت حد تک آپ اس کے بنیادی اصولوں سے شناسائی حاصل کر لیں گے۔کبھی آپ نے سوچا ہے یہ کیونکر ممکن ہوا۔اکثر لوگ اس کی وجہ انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی قرار دیں گے۔مگر انٹرنیٹ نے تو صرف اس کی فراہمی آسان بنائی ہے۔ اس کا اصل سبب لکھنے کی عادت ہے۔

ہمارے ہاں بڑے بڑے حکیم گزرے ہیں جن کی حکمت کی داستانیں جی ہاں داستانیں نہ کہ واقعات سن کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔حکمت کے یہ کمالات اور مجرب نسخے وہ اپنے ساتھ لے گئے۔اور ان میں سے چند ایک نسخے جب انگریز کے ہاتھ لگے تو اس نے ان کو میڈیکل سائنس بنا دیا اور ایلو پیتھی کی بنیاد رکھی۔آج ہم اس علم کے لیے ان کے دست نگر ہیں۔

آج ہم یہ سنتے ہیں کہ ہمارے موسیقار گھرانے دم توڑ رہے ہیں اور میڈیا بھی آئے دن ایسے ہی کسی گھرانے کی کسمپرسی کا رونا رو رہا ہوتا ہے۔مگر کبھی ان موسیقاروں نے اپنے گھرانے سے آگے بھی سوچا ہے۔ کبھی انہوں نے اپنے اس علم کو لکھ کر محفوظ کیا ہے۔ یہی علم جب انگریز کے ہاتھ لگا تو اس نے موسیقی پر کتابیں لکھیں، موسیقی سکھانے کے ادارے بنا ڈالے اور آج کسی غیر ملک سے حاصل کردہ ڈگری ہمارے میڈیا میں موسیقار ہونے کے لیے شرط اول ہے۔

آپ کسی بھی ممکنہ علم کا نام لکھ کر گوگل پر سرچ کریں اور جو فہرست ملتی ہے اس کا جائزہ لیں۔99 فیصد نتائج آپ کو انگریز کی کاوش نظر آئے گی کیونکہ وہ کوئی بھی کام کرتا ہے اس کو لکھ لیتا ہے۔لکھنے کے لیے اس کا عالم یا بہت پڑھا لکھا ہونا بھی ضروری نہیں۔انگریزی میں ایک اصطلاح (DIY(Do it yourself استعمال ہوتی ہے۔تجربے کے طور پر آپ گوگل میں یہ اصطلاح لکھ کر سرچ کریں۔دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا کام ہو جو اس زمرے میں شامل نہ ملے۔اس زمرے میں لکھنے والے کوئی ماہر کاریگر نہیں بلکہ عام لوگ ہیں جو اگر کسی کام کو خود سے مکمل کرتے ہیں تو "آپ خود کریں" کے زمرے میں اس کو لکھ دیتے ہیں۔اور اگر آپ اس کو پڑھیں تو معلوم ہو گا اس میں سے بیشتر چیزیں آپ خود کرتے ہیں مگر کبھی آپ کو لکھنے کا خیال نہیں آیا۔

یہ لکھنے کی عادت کا ہی ثمر ہے کہ آج معمولی سے معمولی کام کے لیے ہم انگریز مصنف کے محتاج ہیں۔ اس لیے میری آپ سب سے درخواست ہے کہ چاہے غلط سلط، ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں لکھیں مگر لکھیں ضرور۔کیونکہ اگر آپ اچھا لکھاری بننا چاہتے ہیں تو:
می نویس و می نویس ومی نویس​

واصف حسین
اصل تحریر کا ربط

نہ جب دکھلائے کچھ بھی آنکھ پیارے

غزل

نہ جب دکھلائے کچھ بھی آنکھ پیارے
تَو پھرتُو اپنے اندر جھانک پیارے

طلاطم خیز ہے جو دل کا دریا
سفالِ دشتِ وحشت پھانک پیارے

اگر مَہتاب دل کا بجھ گیا ہے
سرِ مژگاں ستارے ٹانک پیارے

ہے اُلفت سے دگر اظہارِ اُلفت
نہ اک لاٹھی سے سب کو ہانک پیارے

محمد احمدؔ

نظم ۔۔۔ تنگدستی اگر نہ ہو ۔۔۔ اختر شمارؔ

تنگدستی اگر نہ ہو

اپنے گھر کے باغیچے میں پھول نہیں تھے
بابا یہ کہتے تھے بچو!
میرے پھول تو تم ہو!
اور تمہارے کارن اس باغیچے میں
دھنیا مرچیں، اور پودینہ سبزی مائل
روکھی روٹی کو کافی ہے
بھوک میں روکھی روٹی اور چٹنی کی خوشبو
پھولوں سے بہتر ہوتی ہے۔۔۔

اختر شمار

نظم: حیرت ۔ از ۔ محمد احمد

حیرت

ایک بستی تماش بینوں کی
،اک ہجوم
اژدھام لوگوں کا
دیکھ میرے تنِ برہنہ کو
ہنستا ہے
قہقہے لگاتا ہے
اور میں ششدر ہوں
دیکھ کر اُن کو
سب کے سب لوگ ہیں برہنہ تن ۔

محمد احمدؔ

چندا رے !چندا رے! کبھی تو زمیں پر آ۔۔۔۔! جاوید اختر


کچھ گیت اتنے خوبصورت ہوتے ہیں کہ اُنہیں محض فلمی گیت سمجھ کر نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ ایسے گیت ہزار بارے سُنے جائیں تو ایک ہزار ایکویں بار سُننے کا دل چاہتا ہے۔ گو ہم باوجوہ اب موسیقی نہیں سُنا کرتے ۔ تاہم کچھ چیزوں کو استثنیٰ دیے بغیر بات نہیں بنتی۔

جاوید اخترصاحب کا یہ گیت بھی ایسا ہی ہے۔ اِس میں ترنگ ہے، تڑپ ہے، معصومیت ہے، تحیّر ہے، ان پوچھے سوالوں کا ایک جہان ہے اورنئی دنیاؤں میں جھانکنے کی ایک لگن ہے۔ اگر سرشاری و جذب (Ecstasy) نام کی کوئی چیز اِس دنیا میں ہے تو اُسے اِس گیت میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ گو کہ کسی بھی اچھے گیت کو لازوال بنانے کے لئے اُس کی موسیقی اور پسِ پردہ آوازوں کا بڑا کمال ہوتا ہے تاہم پھر بھی اصل تو شاعری ہی ہے اور اچھی شاعری کا سحر ایسا ہے کہ اچھے بھلےانسان کو ازخود رفتہ کر سکتا ہے۔ یقین نہیں آتا تو یہ گیت ملاحظہ فرمائیے۔

چندا رے !چندا رے! کبھی تو زمیں پر آ بیٹھیں گے باتیں کریں گے
تجھ کو آتے اِدھر لاج آئے اگر، اوڑھ کے آ جا تو بادل گھنے

گلشن گلشن، وادی وادی، بہتی ہے ریشم جیسی ہوا
جنگل جنگل، پربت پربت، ہیں نیند میں سب اِک میرے سوا
چندا۔۔۔! چندا۔۔۔۔!!!
آ جا سپنوں کی نیلی ندیا میں نہائیں
آ جا یہ تارے چُن کر ہم ہار بنائیں

اِن دُھندلی دُھندلی راہوں میں آ دونوں ہی کھو جائیں

چندا رے !چندا رے! کبھی تو زمیں پر آ بیٹھیں گے باتیں کریں گے
تجھ کو آتے اِدھر لاج آئے اگر، اوڑھ کے آ جا تو بادل گھنے

چندا سے پوچھیں گے ہم سارے سوال نِرالے
جَھرنے کیوں گاتے ہیں پنچھی کیوں مَتوالے
ہو ! کیو ں ہے ساون مہینہ گھٹاؤں کا
چندا سے پوچھیں گے ہم سارے سوال نِرالے
چندا۔۔۔! چندا۔۔۔۔!!!
تتلی کے پر کیوں اتنے رنگیں ہوتے ہیں
جگنو راتوں میں جاگیں تو کب سوتے ہیں

اِن دُھندلی دُھندلی راہوں میں آ دونوں ہی کھو جائیں

چندا رے !چندا رے! کبھی تو زمیں پر آ بیٹھیں گے باتیں کریں گے
تجھ کو آتے اِدھر لاج آئے اگر، اوڑھ کے آ جا تو بادل گھنے


جاوید اختر





کیا آپ حالات کے پروردہ ہیں؟


اسٹیفن کوی کہتے ہیں :
I am not a product of my circumstances. I am a product of my decisions.
–Stephen Covey
اسٹیفن کوی معروف امریکی مصنف ہیں جنہوں نے مشہورِ زمانہ کتاب "The 7 Habits of Highly Effective People " تحریر کی ہے۔

بظاہر دیکھنے پر اسٹیفن کا یہ قول ایک شیخی کی طرح کا لگتا ہے تاہم اس کے پیچھے ایک پورا فلسفہ چھپا ہوا ہے۔

اگر ہم اپنے ارد گرد نظر ڈالیں تو ہمیں بیشتر لوگ ایسے نظر آئیں گے کہ جنہیں حالات جس طرف ہانک کر لے لئے گئے ،وہ وہیں کے ہو گئے۔ جنہیں جیسا ماحول ملا وہ ویسے ہی ڈھل گئے۔ یعنی اُن کی شخصیت سازی اُنہوں نے خود نہیں کی بلکہ مخصوص و حالات و واقعات جس طرح اُن کی پرورش و پراداخت کرتے رہے وہ ویسے ہی ہو رہے اور اُن کے اپنے ارادے کا اُس میں کوئی خاص دخل نہیں رہا۔اسٹیفن نے دراصل اسی سوچ پر ضرب لگائی ہے کہ انسان خود کو بالکل ہی حالات کے دھارے پر نہ چھوڑ دے بلکہ وہ خود اپنے بارے میں سوچے کہ وہ کیا کر رہا ہے اور وہ کیا کر سکتا ہے اور اُسے کیا کرنا چاہیے۔ پھر اپنے کچھ اہداف طے کرے اور اُن کے حصول کے لئے منصوبہ بندی اور عملی اقدامات کرے۔

"کسی راستے پر آپ کو اُمید کی ذرا سی بھی کرن نظر آئے تو فوراً تدبر اور مناسب منصوبہ بندی کے ساتھ اُس راستے پر چلنے کی عملی کوشش کریں۔"
میں یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ حالات و واقعات کو بالکل ہی نظر انداز کر دیا جائے یا جو فیصلے تقدیر کرے اُن کی طرف سے آنکھ بند کر لی جائے بلکہ صرف یہ کہ انسان اپنے راستے میں در آنے والی ان دیواروں سے کمر ٹِکا کر نہ بیٹھ جائے بلکہ ان دیواروں میں در تلاش کرتا رہے ۔ بعید نہیں کہ اس سعی کے طفیل وہ اس صورتحال سے نکلنے میں کامیاب ہو جائے۔

دیکھ یوں وقت کی دہلیز سے ٹکرا کے نہ گر
راستے بند نہیں سوچنے والوں کے لئے

سو اگر آپ سوچتے ہیں کہ آپ کسی صورتِ حال میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں اور اس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے تو اسٹیفن آپ سے ہی مخاطب ہے۔ آپ اپنے حالات سے جزوی سمجھوتہ بھلے سے کر لیں لیکن اس کے آگے ہتھیار نہیں ڈالیں۔ بلکہ اس بارے میں سوچتے رہیں کہ کیا ہو سکتا ہے اور کیسے ہو سکتا ہے۔ اور اگر کسی راستے پر آپ کو اُمید کی ذرا سی بھی کرن نظر آئے تو فوراً تدبر اور مناسب منصوبہ بندی کے ساتھ اُس راستے پر چلنے کی عملی کوشش کریں۔ انسان کی سب سے اچھی رفیق اُمید اور کوشش ہی ہوا کرتی ہے۔ اگر آپ کامیاب نہیں بھی ہوتے تب بھی کم از کم آپ کو یہ اطمینان تو ضرور ہو گا کہ آپ نے وقت سے ہار نہیں مانی اور اپنے طور پر معاملات سے نبرد آزما رہے یہ احساس آپ کو وقت سے ہارے ہوئے لوگوں میں شامل ہونے سے بچا رکھے گا۔

اسٹیفن کی اسی بات کو ایک شاعر نے اس طرح سے کہا ہے:

ہم خود تراشتے ہیں منازل کے راہ و سنگ
ہم وہ نہیں ہیں جن کو زمانہ بنا گیا

سو اُمید کو مشعلِ راہ بنائیں اور کوشش کو کشتی بنا لیں، آپ کا رب ان شاءاللہ آپ کی کشتی کو پار لگا دے گا۔

غزل ۔ بات جو کہنی نہیں تھی کہہ گئے ۔ محمد تابش صدیقی

محمد تابش صدیقی کی خوبصورت غزل

غزل

بات جو کہنی نہیں تھی کہہ گئے
اشک جو بہنے نہیں تھے بہہ گئے

راہِ حق ہر گام ہے دشوار تر
کامراں ہیں وہ جو ہنس کر سہہ گئے

زندگی میں زندگی باقی نہیں
جستجو اور شوق پیچھے رہ گئے

سعیِ پیہم جس نے کی، وہ سرخرو
ہم فقط باتیں ہی کرتے رہ گئے

اے خدا! دل کی زمیں زرخیز کر
ابرِ رحمت تو برس کر بہہ گئے

شاد رہنا ہے جو تابشؔ، شاد رکھ
بات یہ آبا ہمارے کہہ گئے

محمد تابش صدیقی​

اپنے سب چہرے چھپا رکھے ہیں آئینے میں ۔ قمر جمیل

غزل

اپنے سب چہرے چھپا رکھے ہیں آئینے میں
میں نے کچھ پھول کھلا رکھے ہیں آئینے میں

تم بھی دنیا کو سناتے ہو کہانی جھوٹی
میں نے بھی پردے گرا رکھے ہیں آئینے میں

پھر نکل آئے گی سورج کی سنہری زنجیر
ایسے موسم بھی اُٹھا رکھے ہیں آئینے میں

میں نے کچھ لوگوں کی تصویر اتاری ہے جمیل
اور کچھ لوگ چھپارکھے ہیں آئینے میں

قمر جمیلؔ

قمر جمیل کی دو خوبصورت غزلیں


قمر جمیل پاکستان کے معروف نقاد، ادیب، شاعر اور اردو ادب میں جدید رجحانات کے بانی کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ ان کے دو شعری مجموعے "خواب نما" اور "چہار خواب" شائع ہوئے ۔ دو جلدوں پر مشتمل تنقیدی مضامین کا مجموعہ "جدید ادب" کی سرحدیں ان کی وفات سے کچھ عرصے قبل شائع ہوا ۔ انہوں نے "دریافت" کے نام سے ایک ادبی جریدہ بھی جاری کیا تھا۔ وہ ایک طویل عرصہ ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے۔ انہوں نے کراچی سے نثری نظم کی تحریک کا آغاز کیا اور ادیبوں اور شاعروں کی ایک پوری نسل کو تخلیق کا نیا رجحان دیا۔

قارئینِ بلاگ کے ذوق کے لئے قمر جمیل کی دو غزلیں پیشِ خدمت ہے۔

ایک پتھر کہ دست یار میں ہے
پھول بننے کے انتظار میں ہے

اپنی ناکامیوں پہ آخر کار
مسکرانا تو اختیار میں ہے

ہم ستاروں کی طرح ڈوب گئے
دن قیامت کے انتظار میں ہے

اپنی تصویر کھینچتا ہوں میں
اور آئینہ انتظار میں ہے

کچھ ستارے ہیں اور ہم ہیں جمیلؔ
روشنی جن سے رہ گزار میں ہے

✿✿✿✿✿✿✿

خواب میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں اس کا دکھانا مشکل ہے
آئینے میں پھول کھلا ہے ہاتھ لگانا مشکل ہے

اس کے قدم سے پھول کھلے ہیں میں نے سنا ہے چار طرف
ویسے اس ویران سرا میں پھول کھلانا مشکل ہے

تنہائی میں دل کا سہارا ایک ہوا کا جھونکا تھا
وہ بھی گیا ہے سوئے بیاباں اس کا آنا مشکل ہے

شیشہ گروں کے گھر میں سنا ہے ایک پری کل آئی تھی
ویسے خیال و خواب ہیں پریاں ان کا آنا مشکل ہے

قمر جمیل

اپنا گھر چھوڑ کے ہم لوگ وہاں تک پہنچے ۔ اقبال عظیم

غزل

اپنا گھر چھوڑ کے ہم لوگ وہاں تک پہنچے
صبحِ فردا کی کِرن بھی نہ جہاں تک پہنچے

میں نے آنکھوں میں چھپا رکھے ہیں کچھ اور چراغ
روشنی صبح کی شاید نہ یہاں تک پہنچے

بے کہے بات سمجھ لو تو مناسب ہوگا
اس سے پہلے کہ یہی بات زبان تک پہنچے

تم نے ہم جیسے مسافر بھی نہ دیکھے ہوں گے
جو بہاروں سے چلے اور خزاں تک پہنچے

آج پندارِ تمنّا کا فسُوں ٹُوٹ گیا
چند کم ظرف گِلے نوکِ زبان تک پہنچے

اقبال عظیم

بشکریہ تابش صدیقی بھائی

پاپ کورن کی خوشبو


ابھی میں مغرب پڑھ کر مسجد سے نکلا ہی تھا کہ چند قدم چلنے کے بعد پاپ کورن کی بھینی بھینی خوشبو آنے لگی۔ پاپ کورن چاہے آپ کو کھانے میں اتنے اچھے نہ لگیں لیکن اس کی خوشبو ایسی ہوتی ہے کہ یہ دور سے ہی آپ کو اپنی طرف کھینچتی ہے یا شاید ہر اچھی خوشبو کا یہی حال ہوتا ہے۔

میں کچھ کھانے پینے کے موڈ میں تو نہیں تھا لیکن پھر بھی بے اختیار پاپ کورن والے کے پاس پہنچ گیا۔ میں نے دس روپے نکال کر اُس کی طرف بڑھائے تو مجھے خیال آیا کہ شاید یہ پاپ کارن والا کہے کہ بھائی کم از کم بیس روپے کے لو۔ لیکن اُس نے ایسا کچھ نہیں کہا اور ایک کاغذ کا لفافہ نکال کر اُس میں پاپ کورن ڈالنے لگا۔ لفافہ زیادہ چھوٹا نہیں تھا بلکہ دس روپے کے اعتبار سے کافی مناسب ہی تھا۔ اُس نے دو تین بار لفافے میں پاپ کورن ٹُھونسنے کی کوشش کی اور اُوپر تک بھرنے لگا۔


مجھے حیرت ہوئی کہ آج کل تو لوگ کوشش کرتے ہیں کہ بس پیسے لے لیں اور چیز ہی نہ دیں یا دیں بھی تو کہیں نہ کہیں ڈنڈی مار دیں۔ پھل والے اور سبزی والے اس زور سے تھیلی ترازو میں پھینکتے ہیں کہ ترازو کا پلڑ ا جھکنے کے بعد اُٹھنے کی ہمت ہی نہیں کر پاتا اور اکثر دوکاندار ترازو کے قرار میں آنے سے پہلے ہی تھیلی اُٹھا کر آپ کے ہاتھ میں پکڑ ا دیتے ہیں۔ حد تو یہ کہ کچھ بے ایمان لوگ تو ترازو میں ہی کچھ نہ کچھ ایسی ترتیب کرتے ہیں کہ وزن میں کمی کی جا سکے۔ پھر چیز کے معیار میں بھی ہیر پھیر کرتے ہیں آگے والی ڈھیری میں تر و تازہ پھل لگا دیتے ہیں اور پیچھے سے گلے سڑے اُٹھا کر تولنا شروع کر دیتے ہیں۔ یعنی اگر آپ خریداری کرتے ہوئے ہوشیار نہیں ہیں تو زیادہ تر یہی ہوتا ہے کہ آپ خراب چیزیں اُٹھا کر گھر لے آتے ہیں۔

بہرکیف میں نے پاپ کورن والے سے کہا کہ "بھائی ! زیادہ مت بھرو مجھے اکیلے ہی کھانا ہے" تو وہ کہنے لگا کہ " اللہ کا فرمان ہے کہ پورا تولو!" اور پھراُس نے لفافہ اوپر تک بھر کر مجھے تھما دیا۔ مجھے بڑی خوش گوار حیرت ہوئی۔ آج کل کہاں ملتے ہیں ایسے لوگ۔

مجھے لگا کہ جیسے پاپ کورن کی خوشبو کے ساتھ اُس کے اخلاص کی خوشبو بھی فضا میں پھیلی ہوئی تھی جو لوگوں کو ہاتھ پکڑ کر اُس تک کھینچ لاتی تھی۔

انور شعور کا شعر یاد آگیا:

براہِ راست اثر ڈالتے ہیں سچے لوگ
کسی دلیل سے منوانے تھوڑی ہوتے ہیں


از محمد احمدؔ

دُکھ وہ سرسوں کہ ہتھیلی پہ جمائی نہ گئی ۔ راحیل فاروق

ہمارے بہت ہی عزیز دوست راحیل فاروق کی لاجواب غزلوں میں سے ایک شاہکار! قارئینِ رعنائیِ خیال کی نذر:

غزل

سات پردوں سے تری جلوہ‌نمائی نہ گئی
دیکھ لی ہم نے وہ صورت جو دکھائی نہ گئی

داستاں ہجر کی کچھ یوں بھی ہوئی طولانی
سنی ان سے نہ گئی ہم سے سنائی نہ گئی

کیا ہوا دل کے سمندر کا تلاطم جانے
ایک مدت سے تری یاد نہ آئی نہ گئی

ذکر اچانک ہی چھڑا اور قیامت کا چھڑا
مسکرایا نہ گیا بات بنائی نہ گئی

درد مندی نے کیے فاصلے آفاق کے طے
آہ پہنچی ہے جہاں آبلہ پائی نہ گئی

فرقتوں کی یہی دیوار بلا ہے یا رب
کل اٹھائے نہ اٹھی آج گرائی نہ گئی

دل وہ بھنورا ہے کہ نچلا نہیں بیٹھا دم بھر
دکھ وہ سرسوں کہ ہتھیلی پہ جمائی نہ گئی

دل سلگتا ہی رہا آنکھ برستی ہی رہی
ایک چنگاری ہی ساون سے بجھائی نہ گئی

عشق میں حسن ہے یا حسن میں ہے عشق نہاں
وہ نظر مجھ سے پلٹ کر سوئے آئینہ گئی

دل کے آنے ہی میں چیں بول گئے راحیلؔ آپ
اتنی تکلیف بھی حضرت سے اٹھائی نہ گئی

راحیل فاروق


غزل۔ اپنے خونِ وفا میں نہائے ہوئے زخم اپنے بدن پر سجائے ہوئے ۔ اعجاز رحمانی

غزل

اپنے خونِ وفا میں نہائے ہوئے زخم اپنے بدن پر سجائے ہوئے
قاتلوں سے کہو اب نہ زحمت کریں ہم صلیب اپنی خود ہیں اُٹھائے ہوئے

ہر زباں بے سُخن، ہر جبیں پر شکن وحشتِ رقص میں انجمن انجمن
اتنا غمناک ماحول ہے شہر کا اک زمانہ ہوا مُسکرائے ہوئے

معتبر کیا ہے اور کیا ہے نا معتبر، اپنا اپنا خیال اپنی اپنی نظر
لوگ کانٹوں سے بچتے ہیں گلزار میں، ہم گلوں سے ہیں دامن بچائے ہوئے

ایک کیا سو نشیمن ہوں میرے اگر، وہ بھی قربان گلزار کے نام پر
آشیاں کا مجھے غم نہیں ، غم یہ ہے، پھول شعلوں کی زد میں ہیں آئے ہوئے

سطحِ دریا ہے چشمِ تماشائی میں، جھانکتا کون ہے دل کی گہرائی میں
اشک آنکھوں میں اس طرح محفوظ ہیں، جیسے موتی صدف ہو چھپائے ہوئے

رہگزاروں کے سب نقش معدوم ہیں، پیڑ ہیں بھی تو سائے سے محروم ہیں
جن کو آتا ہے شیشہ گری کا ہنر، سنگ ہاتھوں میں ہیں وہ اُٹھائے ہوئے

ساغرِ شب کو لبریز کر دیں گے ہم، صبح کو رنگ آمیز کر دیں گے ہم
ضد پہ قائم ہیں اپنی ہوائیں اگر، مشعلِ جاں ہیں ہم بھی جلائے ہوئے

ہے اسی شہر کا نام شہرِ طرب، لوگ بھی ہیں عجب، شہر بھی ہے عجب
پیار ہونٹؤں پہ ہے، پھول ہاتھوں میں ہے، آستیں میں ہیں خنجر چھپائے ہوئے

دل کی باتوں میں ہرگز نہ آئیں گے ہم، اب فریبِ تبسم نہ کھائیں گے ہم
زندگی بھر کا اعجازؔ ہے تجربہ ، دوست دشمن ہیں سب آزمائے ہوئے

اعجاز رحمانی


بشکریہ : فلک شیر بھائی

کاپی پیسٹ اسپیشل

کرنل محمد خان کی ایک شاہکار تحریر

رضیہ ہماری توقع سے بھی زیادہ حسین نکلی اور حسین ہی نہیں کیا فتنہ گر قد و گیسو تھی۔

پہلی نگاہ پر ہی محسوس ہوا کہ initiative ہمارے ہاتھ سے نکل کر فریقِ مخالف کے پاس چلا گیا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ پہلا سوال بھی ادھر سے ہی آیا:

"تو آپ ہیں ہمارے نئے نویلے ٹیوٹر؟"

اب اس شوخ سوال کا جواب تو یہ تھا کہ "تو آپ ہیں ہماری نئی نویلی شاگرد؟"

لیکن سچی بات یہ ہے کہ حسن کی سرکار میں ہماری شوخی ایک لمحے کے لیئے ماند پڑ گئی اور ہمارے منہ سے ایک بے جان سا جواب نکلا:

" جی ہاں، نیا تو ہوں ٹیوٹر نہیں ہوں۔ مولوی صاحب کی جگہ آیا ہوں"

"اس سے آپ کی ٹیوٹری میں کیا فرق پڑتا ہے؟"

"یہی کہ عارضی ہوں"

"تو عارضی ٹیوٹر صاحب۔ ہمیں ذرا اس مصیبت سے نجات دلا دیں"

رضیہ کا اشارہ دیوانِ غالب کی طرف تھا۔ میں نے قدرے متعجب ہو کر پوچھا:

"آپ دیون غالب کو مصیبت کہتی ہیں؟"

"جی ہاں! اور خود غالب کو بھی،"

"میں پوچھ سکتا ہوں کہ غالب پر یہ عتاب کیوں؟:

"آپ ذرا آسان اردو بولیئے۔ عتاب کسے کہتے ہیں؟"

"عتاب غصے کو کہتے ہیں۔"

"غصہ؟ ہاں غصہ اس لئے کہ غالب صاحب کا لکھا تو شاید وہ خود بھی نہیں سمجھ سکتے۔ پھر خدا جانے پورا دیوان کیوں لکھ مارا؟:

"اس لئے کہ لوگ پڑھ کر لذت اور سرور حاصل کریں"

"نہیں جناب۔ اس لئے کہ ہر سال سینکڑوں لڑکیاں اردو میں فیل ہوں"

"محترمہ۔ میری دلچسپی فقط ایک لڑکی میں ہے، فرمایئے آپ کا سبق کس غزل پر ہے؟"

جواب میں رضیہ نے ایک غزل کے پہلے مصرع پر انگلی رکھ دی لیکن منہ سے کچھ نہ بولی۔ میں نے دیکھا تو غالب کی مشہور غزل تھی۔

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا

میں نے کہا:

"یہ تو بڑی لا جواب غزل ہے ذرا پڑھیئے تو۔"

"میرا خیال ہے آپ ہی پڑھیں ۔ میرے پڑھنے سے اس کی لا جوابی پر کوئی ناگوار اثر نہ پڑے"

مجھے محسوس ہوا کہ ولایت کی پڑھی ہوئی رضیہ صاحبہ باتونی بھی ہیں اور ذہین بھی لیکن اردو پڑھنے میں غالباً اناڑی ہی ہیں۔ میں نے کہا:

"میرے پڑھنے سے آپ کا بھلا نہ ہوگا۔ آپ ہی پڑھیں کہ تلفظ بھی ٹھیک ہو جائے گا"

رضیہ نے پڑھنا شروع کیا اور سچ مچ جیسے پہلی جماعت کا بچہ پڑھتا ہے۔

" یہ نہ تھی ہماری قس مت کہ وصل۔۔۔ ۔۔۔ ۔"

میں نے ٹوک کر کہا:

"یہ وصل نہیں وصال ہے، وصل تو سیٹی کو کہتے ہیں۔"

رضیہ نے ہمیں سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ ہم ذرا مسکرائے اور ہمارا اعتماد بحال ہونے لگا۔

رضیہ بولی:
"اچھا۔ وصال سہی۔ وصال کے معنی کیا ہوتے ہیں؟"

"وصال کے معنی ہوتے ہیں ملاقات، محبوب سے ملاقات۔ آپ پر مصرع پڑھیں۔"

رضیہ نے دوبارہ مصرع پڑھا۔ پہلے سے ذرا بہتر تھا لیکن وصال اور یار کو اضافت کے بغیر الگ الگ پڑھا۔ اس پر ہم نے ٹوکا۔

"وصال یار نہیں وصالِ یار ہے۔ درمیان میں اضافت ہے۔"

"اضافت کیا ہوتی ہے؟ کہاں ہوتی ہے؟"

"یہ جو چھوٹی سی زیر نظر آرہی ہے نا آپ کو، اسی کو اضافت کہتے ہیں۔"

"تو سیدھا سادا وصالے یار کیوں نہیں لکھ دیتے؟"

"اس لئے کہ وہ علما کے نزدیک غلط ہے۔"۔۔۔ ۔۔۔ یہ ہم نے کسی قدر رعب سے کہا۔

علما کا وصال سے کیا تعلق ہے؟"

" علما کا تعلق وصال سے نہیں زیر سے ہے۔"

"اچھا جانے دیں علما کو۔ مطلب کیا ہوا؟"

"شاعر کہتا ہے کہ یہ میری قسمت ہی میں نہ تھا کہ یار سے وصال ہوتا۔"

"قسمت کو تو غالب صاحب درمیان میں یونہی گھسیٹ لائے، مطلب یہ کہ بے چارے کو وصال نصیب نہ ہوا"

"جی ہاں کچھ ایسی ہی بات تھی۔"

"کیا وجہ؟"

"میں کیا کہہ سکتا ہوں؟"

"کیوں نہیں کہہ سکتے ۔ آپ ٹیوٹر جو ہیں۔"

"شاعر خود خاموش ہے۔"

"تو شاعر نے وجہ نہیں بتائی مگر یہ خوش خبری سنادی کہ وصال میں فیل ہوگئے؟"

" جی ہاں فی الحال تو یہی ہے۔ آگے پڑھیں۔"

رضیہ نے اگلا مصرع پڑھا۔ ذرا اٹک اٹک کر مگر ٹھیک پڑھا:

اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا

میں نے رضیہ کی دلجوئی کے لئے ذرا سرپرستانہ انداز میں کہا:

"شاباش، آپ نے بہت اچھا پڑھا ہے۔"

"اس شاباش کو تو میں ذرا بعد میں فریم کراؤں گی۔ اس وقت ذرا شعر کے پورے معنی بتادیں۔"

ہم نے رضیہ کا طنز برداشت کرتے ہوئے کہا:

"مطلب صاف ہے، غالب کہتا ہے قسمت میں محبوبہ سے وصال لکھا ہی نہ تھا۔ چنانچہ اب موت قریب ہے مگر جیتا بھی رہتا تو وصال کے انتظار میں عمر کٹ جاتی۔"

" توبہ اللہ، اتنا Lack of confidence یہ غالب اتنے ہی گئے گزرے تھےِ؟"

گئے گزرے؟ نہیں تو۔۔۔ غالب ایک عظیم شاعر تھے۔"

"شاعر تو جیسے تھے، سو تھے لیکن محبت کے معاملے میں گھسیارے ہی نکلے"

بشکریہ

شکرقندی کا المیہ

شکرقندی کا المیہ
مرتضیٰ برلاس سے معذرت کے ساتھ

سبزیوں کے حلقے میں، ہم وہ کج مقدر ہیں
گاجروں میں مولی ہیں، مولیوں میں گاجر ہیں




سرگوشی: شعر جو تختہء مشق بنا :)

دوستوں کے حلقے میں ہم و کج مقدر ہیں
افسروں میں شاعر ہیں، شاعروں میں افسر ہیں مرتضیٰ برلاس

احوالِ ملاقات . فیض صاحب سے معذرت کے ساتھ​ (تضمین)

احوالِ ملاقات
فیض صاحب سے معذرت کے ساتھ​

وہ تو کچھ چُپ چُپ رہی پر اُس کے پیارے بھائی نے‎
چار چھ مکے بھی مارے، آٹھ دس لاتوں کے بعد‎
اُس نے اپنے بھائی سے پوچھا یہ حضرت کون تھے؟
"ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد"​

تضمین از محمد احمدؔ​


جوش ملیح آبادی اور فیس بک ۔۔۔ تحریف در غزلِ جوش

جوش ملیح آبادی کی ایک خوبصورت غزل کسی شوخ ساعت میں  ہماری مشقِ ستم کا شکار ہو گئی تھی۔ غزل کی اس تازہ شکل میں جوش صاحب قتیلِ فیس بک ہو کر رہ گئے ہیں اور اسی بات کی دہائی جناب اس غزل میں دے رہے ہیں۔

ملاحظہ فرمائیے۔


فیس بک دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا
جا تجھے کشمکشِ دہر سے آزاد کیا

وہ کریں بھی تو کن الفاظ میں مینشن تجھ کو
جن کو تیری نگہِ لطف نے برباد کیا

نوٹیفائیر نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا
جب میں لاگ آف ہوا، تو نے مجھے یاد کیا

اے میں سو جان سے اس طرزِ تکلّم کے نثار
آپ نے ٹیگ کیا اور کچھ ارشاد کیا

اس کا رونا نہیں ان فرینڈ کیا تم نے مجھے
اس کا غم ہے کہ بہت دیر سے آزاد کیا

اتنا مانوس ہوں 'فطرت' سے، کہ لی جب چُٹکی
جھک کے میں نے یہ کہا، مجھ سے کچھ ارشاد کیا

مجھ کو تو ہوش نہیں، میں تو وہاں ٹیگ نہ تھا
لوگ کہتے ہیں کہ تم نے مجھے برباد کیا​

پس نوشت:

اِس دھماچوکڑی میں فرینڈ کی "ر" کہیں گر گرا گئی ہے، تاہم یہ انگریزی ہے اور اردو کے برخلاف کہ جس میں صرف الف کا ہی وصال ہوا کرتا ہے، انگریزی میں وصال اتنی عنقا شے نہیں ہے سو ہم اس اجازت کا فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ :)

ویسے انگریزی میں کہیں کہیں "ر" کی ادائیگی آدھی یا چوتھائی بھی رہ جاتی ہے اور چھوٹے موٹے حروف جگجیت سنگھ کی طرح کھا جانا عیب نہیں سمجھا جاتا۔ 

غزل ۔ سوزِ غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا ۔ جوش ملیح آبادی

غزل

سوزِ غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا
جا تجھے کشمکشِ دہر سے آزاد کیا

وہ کریں بھی تو کن الفاظ میں تیرا شکوہ
جن کو تیری نگہِ لطف نے برباد کیا

دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا
جب چلی سرد ہوا، میں نے تجھے یاد کیا

اے میں سو جان سے اس طرزِ تکلم کے نثار
پھر تو فرمائیے، کیا آپ نے ارشاد کیا

اس کا رونا نہیں کیوں تم نے کیا دل برباد
اس کا غم ہے کہ بہت دیر میں برباد کیا

اتنا مانوس ہوں فطرت سے، کلی جب چٹکی
جھک کے میں نے یہ کہا، مجھ سے کچھ ارشاد کیا

مجھ کو تو ہوش نہیں تم کو خبر ہو شاید
لوگ کہتے ہیں کہ تم نے مجھے برباد کیا

جوش ملیح آبادی

تم ہوتے ہو جہاں حماقت ہوتی ہے



جاوید اختر ہمارے پسندیدہ شاعر ہیں۔ اُن کی ایک غزل جو ہمیں  بہت پسند ہے ایک دن بیٹھے بیٹھے دماغ میں اُلٹ پُلٹ ہوگئی۔ یہ نیا ورژن قارئینِ بلاگ کے لئے پیش ہے۔

تم ہوتے ہو جہاں حماقت ہوتی ہے
میں ہوتا ہوں، میری ہمت ہوتی ہے

اکثر وہ کہتے ہیں تکلف مت کرنا
اکثر کیوں کہتے ہیں حیرت ہوتی ہے

چاروں اور سے دیکھتے ہیں اُس شوخ کو ہم
ڈبے پر ہر شے کی قیمت ہوتی ہے

ماں کے ہاتھ میں چپل بھی ہے دھیا ن رہے
یہ مانا پیروں میں جنت ہوتی ہے

عادی ہوں میں دنیا بھر کی باتوں کا
جانتا ہوں میں اُن کو عادت ہوتی ہے

بسمہ اللہ پڑھ کر وہ پانی ڈالتا ہے
دودھ میں اچھی خاصی برکت ہوتی ہے​

غزل ۔ غم ہوتے ہیں جہاں ذہانت ہوتی ہے​۔ جاوید اختر

غزل​
غم ہوتے ہیں جہاں ذہانت ہوتی ہے​
دنیا میں ہر شے کی قیمت ہوتی ہے​
اکثر وہ کہتے ہیں وہ بس ہیں میرے​
اکثر کیوں کہتے ہیں حیرت ہوتی ہے​
تب ہم دونوں وقت چُرا کر لاتے تھے​
اب ملتے ہیں جب بھی فرصت ہوتی ہے​
اپنی محبوبہ میں اپنی ماں دیکھیں​
بِن ماں کے بچوں کی فِطرت ہوتی ہے​
اک کشتی میں ایک قدم ہی رکھتے ہیں​
کچھ لوگوں کی ایسی عادت ہوتی ہے​
جاوید اختر​

شبنم افسانی

شبنم افشانی

اے غریبِ شہر تیری رب نگہبانی کرے
لوڈ شیڈنگ کے ستائے، تجھ پہ آسانی کرے
گر نہیں تجھ کو میسر گرمی دانوں کا سفوف٭
آسماں تیری کمر پر شبنم افشانی کرے

محمد احمدؔ​

* prickly heat powder​


میرا دل بدل دے

جنید جمشید کا پڑھا ہوا یہ کلام مجھے بہت اچھا لگا۔ یہ دعائیہ کلام ہے اور اس کی شاعری بھی بہت خوب ہے۔ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ یہ شاعری جنید جمشید صاحب کی ہی ہے یا کسی اور کی ہے۔ تاہم یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اسلام میں دعا کو منظوم کرنا پسند نہیں کیا جاتا۔

میرا دل بدل دے

میرا غفلت میں ڈوبا دل بدل دے​
ہوا و حرص والا دل بدل دے​
الٰہی فضل فرما ،دل بدل دے​
بدل دے دل کی دنیا ،دل بدل دے​
گناہ گاری میں کب تک عمر کاٹوں؟؟​
بدل دے میرا رستہ، دل بدل دے​
ہٹا لوں آنکھ اپنی ماسواسے​
جیوں میں تیری خاطر، دل بدل دے​
کروں قربان اپنی ساری خوشیاں​
تو اپنا غم عطا کر، دل بدل دے​
سہل فرما مسلسل یاد اپنی​
الٰہی رحم فرما،دل بدل دے​
پڑا ہوں تیرے در پر دل شکستہ​
رہوں کیوںدل شکستہ، دل بدل دے​
تیرا ہو جاؤں اتنی آرزو ہے​
بس اتنی ہے تمنا ،دل بدل دے​
میری فریاد سن لے میرے مولا​
بنا لے اپنا بندہ ،دل بدل دے​
دلِ مغموم کو مسرور کر دے​
دلِ بے نور کو پر نور کر دے​
میرا ظاہر سنور جائے الٰہی​
میرے باطن کی ظلمت دور کر دے​


تحریف در غزلِ شکیب جلالی :)

شکیب جلالی کی معروف غزل "یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں" اور ہماری مشقِ ستم، آپ احباب کے ذوقِ سلیم کی نذر: 

یہ جو دیوانے سے چھ آٹھ نظر آتے ہیں
ان میں کچھ صاحبِ بمباٹ1 نظر آتے ہیں

تیری محفل کا بھرم رکھتے ہیں سو جاتے ہیں
ورنہ یہ لوگ تو فِٹ فاٹ نظر آتے ہیں

دور تک کوئی ستارہ ہے نہ کوئی جگنو
ان دنوں آپ بھی کچھ شارٹ2 نظر آتے ہیں

ان سموسوں میں حراروں کے سوا کچھ بھی نہیں
آپ کھا کھا کے بھی اسمارٹ3 نظر آتے ہیں

جب سے اسپاٹ کی فکسکنگ کا سنا ہے شہرہ
اب تو ہرمیچ میں اسپاٹ4 نظر آتے ہیں

ہو گئے وہ بھی سگِ عاملِ تطہیرِ لباس
اب کبھی گھر تو کبھی گھاٹ نظر آتے ہیں

کچے دھاگے سے کھنچے آتے ہیں اب بھی لیکن
کچے دھاگے میں کئی ناٹ5 نظر آتے ہیں

اُن سے کہتا تھا کہ مت اتنی مٹھائی کھائیں
دیکھیے اب وہ شوگر پاٹ6 نظر آتے ہیں

محمد احمد


فرہنگ
1۔ بمباٹ : ایک قسم کی دیسی شراب 
2- short
3- smart
4- spot
5- knot
6- sugar pot

باقی صدیقی کی سدا بہار غزل

غزل

داغ دل ہم کو یاد آنے لگے 
لوگ اپنے دیئے جلانے لگے 

کچھ نہ پا کر بھی مطمئن ہیں ہم 
عشق میں ہاتھ کیا خزانے لگے 

یہی رستہ ہے اب یہی منزل 
اب یہیں دل کسی بہانے لگے 

خود فریبی سی خود فریبی ہے 
پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے 

اب تو ہوتا ہے ہر قدم پہ گماں 
ہم یہ کیسا قدم اٹھانے لگے 

اس بدلتے ہوئے زمانے میں 
تیرے قصے بھی کچھ پرانے لگے 

رخ بدلنے لگا فسانے کا 
لوگ محفل سے اٹھ کے جانے لگے 

ایک پل میں وہاں سے ہم اٹھے 
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے 

اپنی قسمت سے ہے مفر کس کو 
تیر پر اڑ کے بھی نشانے لگے 

ہم تک آئے نہ آئے موسم گل 
کچھ پرندے تو چہچہانے لگے 

شام کا وقت ہو گیا باقیؔ 
بستیوں سے شرار آنے لگے 

باقیؔ صدیقی

لوگ جیسے بھی ہوں رکھیے حسنِ ظن، حُسنِ سُلُوک

غزل

زندگانی کا بنا لیجے چلن حُسنِ سُلُوک
لوگ جیسے بھی ہوں رکھیے حسنِ ظن، حُسنِ سُلُوک

سعیِ پیہم ہو کہ ہر دن زندگی کا خوب ہو
ہر عمل حسنِ عمل ہو ہر جتن حُسنِ سُلُوک

رہبرو! فتنہ گرو! غارت گرانِ دیں سُنو
الحذر! اب چاہتا ہے یہ وطن، حُسنِ سُلُوک

دھوپ ہے تو کیسا شکوہ، آپ خود سایہ بنیں 
بے غرض کرتے ہیں سب سرو و سمن حُسنِ سُلُوک

مسکرائیں، رنج بانٹیں، اور شجر کاری کریں
چاہتے ہیں آپ سے کوہ و دمن حُسنِ سُلُوک

ہم بُرائی کو بُرائی سے بدل سکتے نہیں
راہرو ہو یا ہو کوئی راہزن حُسنِ سُلوک

آپ بھی احمدؔ فقط ناصح نہ بنیے، کیجے کچھ!
ہر ادا حُسنِ ادا ہو، ہر سخن حُسنِ سُلُوک

محمد احمدؔ


بھرتی کا لفظ


بھرتی کا لفظ
محمد احمد

اُستاد ِ محترم نے کاغذ پر لکھے اکلوتے شعر پر نظر ڈالی اور عینک (جوبا مشکل ناک پر ٹکی ہوئی تھی) کے اوپر سےہمیں عجیب طرح سے دیکھا۔ ہم ابھی سٹپٹانے یا نہ سٹپٹانے کا فیصلہ کر ہی رہے تھے کہ یکایک اُن کے چہرے پر مُسکراہٹ نمودار ہوگئی۔ کہنے لگے۔ برخوردار شعر تو بہت اچھا ہے لیکن یہ ایک لفظ بھرتی کا ہے۔ اُستادِ محترم کی اُنگلی تلے دبا ہوا بھرتی کا لفظ ناقدانہ جبر و استبداد کی تاب نہ لاتے ہوئے، بہ صد ندامت ہم سے نظریں نہیں ملا پا رہا تھا۔ ایک لمحے کو خیال آیا کہ اُستادِ محترم کی انگشت مبارک کو زحمتِ شاقہ دے کر نادم لفظ سے آنکھیں چار کر لی جائیں لیکن پھر پاسِ ادب مانع ہوااور ہم نے دل ہی دل میں شعر کو دُہرا کر اُس بھرتی کے لفظ کو مجازاً ہی سہی گُدّی سے پکڑ لیا۔

بات استادِ محترم کی دل کو لگی۔ واقعی اگر وہ لفظ نہ بھی ہوتا تو بھی شعر کا مفہوم مکمل تھا۔ لیکن ہائے وہ شعر کا سانچہ کہ جو ایک حرف کے کم یا زیادہ ہونے پر بھی بانکا ہو جاتا ہےاور سجیلا ہونے سے انکار کر دیتا ہے۔ جبکہ یہاں تو معاملہ حرف کا نہیں بلکہ پورے لفظ کا تھا۔

آپ نے شاید بھرتی کے لفظ کے بارے میں سنا ہو۔ نہیں سُنا تو ہم بتا دیتے ہیں۔ شعری اصطلاح میں شعر میں محض وزن پورا کرنے کی خاطر ایسے لفظ شامل کرنا کہ جن کے نہ ہونے پر بھی شعر کے مفہوم پر کوئی فرق نہ پڑے وہ بھرتی کے لفظ یا حشو کہلاتے ہیں۔ اور جن کی عدم موجودگی کے باعث مصرع کی بندش چست قرار دی جاتی ہے۔

شاید آپ کو حیرت ہو لیکن امر واقع یہ ہے کہ بھرتی کے لفظ شاعری کے علاوہ نثر میں بھی کافی استعمال ہوتے ہیں ۔ یہ بات الگ ہے کہ نثر میں ان لفظوں کو کان سے پکڑ کر نکالنے والے ناقد میسر نہیں آتے۔ اور میسر آ بھی جائیں تو عموماً ناقد کو ہی کان سے پکڑ کر نکال دیا جاتا ہے۔

نثر میں بھرتی کے الفاظ کی مثالوں میں سب سے پہلے وہ لفظ ہیں جو بے چارے شوہر اپنی بیویوں کے نام کے ساتھ لگاتے ہیں۔ جیسے جان ، جانِ من وغیرہ۔ یا جب بیگمات اپنے شوہر سے کہتی ہیں کہ رات کو جلدی آئیے گا مجھے تھوڑی شاپنگ کرنی ہے تو اس قسم کے جملوں میں لفظ "تھوڑی" عموماً بھرتی کا ہوا کرتا ہے۔

ایسے ہی آپ نے اُن پیروں فقیروں، گدی نشینوں کے بڑے بڑے نام سُنے ہوں گے کہ جو شرو ع ہوجائیں تو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔ ایسے ناموں میں ایک آدھ لفظ واقعی نام کی ادائیگی کے لئے ناگزیر ہوتا ہے لیکن باقی ماندہ زیادہ تر لفظ بھرتی کے ہوتے ہیں اور عموماً مُریدوں کی عقیدت مندی کا شاخسانہ ہوتے ہیں یا پھر نئے عقیدت مند گھیرنے کی پروموشن۔ یعنی حضرت علامہ، مولانا سے لے کر، پیرِطریقت، رہبرِ شریعت تک اور آخر میں لیاری شریف والے یا کیو ٹی وی والے سب کے سب کو آپ ہاتھ پاؤں بچا کر بھرتی کےلفظوں میں شمار کر سکتے ہیں۔

یوں تونثر میں بھرتی کے لفظوں کی کئی ایک مثالیں مزید دی جا سکتی ہیں۔ لیکن ہم مزید مثالیں آپ کی صوابدید پر چھوڑتے ہیں کہ بہ شرطِ دلچسپی اپنے ارد گرد بکھرے بھرتی کے الفاظ  آپ خود تلاش کر سکتے ہیں۔ 

رہا قصہ مذکورہ شعر اور اُس میں موجود بھرتی کے لفظ کا۔ تو جناب اُستادِ محترم سے اجازت لے کر جب ہم گھر کو چلے تو راستے میں ہی کئی ایک الفاظ اس سانچے میں بٹھانے کی سعی کرتے رہے، تاہم سانچے میں پورے بیٹھنے والے سب لفظ اُستادِ محترم کے بتائے گئے اصول کے مطابق بھرتی کے ہی لگے۔ گھر پہنچ کر بھی کچھ دیر یہی اُدھیڑ بُن رہی لیکن پھر ہمیں ایک خیال سُوجھا اور ہم سکون کی سانس لے کر سوگئے۔

اگلے روز جب ہم نے استادِ محترم کے سامنے ترمیم شدہ شعر رکھا تو اُستادِ محترم نے ہمیں ایک دم سے گھور کر دیکھا اور پھر مُسکراتے ہوئے بولے۔ تم بہت فنکار ہو گئے ہو۔ بھرتی کے لفظ کی جگہ تخلص ڈال دیا۔ اُستادِ محترم کی جانب سے اپنے 'فن' کے اعتراف پر ہم پھولے نہیں سمائے اور مسکراتے ہوئے سوچنے لگے۔ چلو مقطع تو ہو ہی گیا اب کبھی نہ کبھی غزل بھی ہو ہی جائے گی۔

خواب مرتے نہیں ۔ احمد فراز

خواب مرتے نہیں

خواب مرتے نہیں
خواب دل ہیں نہ آنکھیں نہ سانسیں کہ جو
ریزہ ریزہ ہوئے تو بکھر جائیں گے
جسم کی موت سے یہ بھی مر جائیں گے
خواب مرتے نہیں

خواب تو روشنی ہیں
نوا ہیں
ہوا ہیں
جو کالے پہاڑوں سے رکتے نہیں
ظُلم کے دوزخوں سے بھی پُھکتے نہیں
روشنی اور نوا اور ہوا کے علم
مقتلوں میں پہنچ کر بھی جُھکتے نہیں

خواب تو حرف ہیں
خواب تو نُور ہیں
خواب سُقراط ہیں
خواب منصور ہیں

احمد فراز