ستارے مُڑ کے بہت دیکھتے ہیں، کیا ہوا تھا

غزل 

ستارے مُڑ کے بہت دیکھتے ہیں، کیا ہوا تھا
کہ دل، یہ پھول ہمیشہ سے کب کِھلا ہوا تھا

کسی غزال کا نام و نشان پوچھنا ہے
تو پوچھیے، میں اُسی دشت میں بڑا ہوا تھا

کمال ہے کہ مِرے ساتھ ساتھ رہتے ہوئے
وہ شخص جیسے کہیں اور بھی گیا ہوا تھا

ہنسی خوشی سبھی رہنے لگے، مگر کب تک
میں پوچھتا ہوں کہانی کے بعد کیا ہوا تھا

پھر ایک دن مجھے اپنی کتاب یاد آئی 
تو وہ چراغ وہیں تھا، مگر بجھا ہوا تھا

خوشی سے اُس کو سہارا نہیں دیا میں نے
مگر وہ سب سے اکیلا تھا، ڈوبتا ہوا تھا

کہ جیسے آنکھ جہانِ دگر میں وا ہوگی
بتا رہے ہیں کہ میں اِس قدر تھکا ہوا تھا

ادریس بابر

بشکریہ : فلک شیربھائی

4 تبصرے: