بجھے اگر بدن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں

غزل 

بجھے اگر بدن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں
جلا لیے سخن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں

چمن خزاں خزاں ہو جب، بجھا بجھا ہوا ہو دل
کریں بھی کیا چمن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں

شبِ فراق پر ہوا، شبِ وصال کا گماں
مہک اُٹھے ملن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں

اُداسیوں کے حبس میں جو تیری یاد آگئی
تو جل اُٹھے پوَن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں

سو کیوں نہ دل کے داغ گن کے کاٹ لیجے آج شب 
گِنے تھے کل گگن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں

محمد احمدؔ​

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں