غزل ۔ بن کر جو کوئی سامنے آتا ہے آئینہ ۔ محمد احمدؔ

غزل

بن کر جو کوئی سامنے آتا ہے آئینہ
خیمے میں دل کے آکے لگاتا ہے آئینہ

وہ کون ہے یہ مجھ سے کبھی پوچھتا نہیں
میں کون ہوں یہ مجھ کو بتاتا ہے آئینہ

اس عکس کے برعکس کوئی عکس ہے کہیں
کیوں عکس کو برعکس دکھاتا ہے آئینہ

خود کو سجائے جاتے ہیں وہ آئینے کو دیکھ
جلووں سے اُن کے خود کو سجاتا ہے آئینہ

خود آئینے پہ اُن کی ٹھہرتی نہیں نظر
کیسے پھر اُن سے آنکھ ملاتا ہے آئینہ


یہ میرا عکس ہے تو مگر اجنبی سا ہے
کیوں کر مجھے مجھی سی چُھپاتا ہے آئینہ

کب دل کے آئینے میں کھلا کرتے ہیں گُلاب
کب آئینے میں پھول کھلاتا ہے آئینہ

آویزہ دیکھتے ہیں وہ جُھک کر قریب سے
یا اُن کو کوئی راز بتاتا ہے آئینہ

جب میرا عکس مجھ سے مماثل نہیں رہا
کیوں میرا عکس مجھ کو دکھاتا ہے آئینہ

اس آئینے میں عکس کسی کا ہے رات دن
احمدؔ یہ عشق دل کو بناتا ہے آئینہ
محمد احمدؔ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں