پکسل پرفیکٹ پاکستان

پکسل پرفیکٹ پاکستان​

جب بھی ہم کسی ملک کی بات کرتے ہیں تو دراصل اُس کے لوگوں کی بات کرتے ہیں۔ اُس ملک کی خوبیاں اُس کے لوگوں کی خوبیاں ہوتی ہیں اور اُس کے عیب اُس کے لوگوں کے معائب ہوتے ہیں۔ 

اگر پاکستان ایک تصویر ہے تو ہم پاکستانی اُس کے پکسلز* ہیں۔ اگر ہر پکسل خود کو اُجلا اور روشن بنا لے تو پاکستان کا چہرہ سنور جائے اور اس تصویر کا تصور تک تابناک ہو جائے۔ 

جتنی پاکستان کی آبادی ہے اُس اعتبار سے دیکھا جائے تو اتنی اچھی ریزولوشن کی تصویر ہر خطے کی قسمت میں کہاں۔ بہت سی تصویریں تو اتنی مبہم ہیں کہ صحیح طرح خط و خال بھی واضح نہیں ہو پاتے۔ بس ضرورت اس بات کہ ہے کہ ہر پاکستانی اپنی خامیاں کوتاہیاں دور کرنے کی کوشش کرے اور خوبیوں کو فزوں تر کرنے کی۔ 

اقبال نے کہا تھا :

افراد کے ہاتھوں میں اقوام کی تقدیر 
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
اگر ہم سب پاکستانی خود کو بہتر بنانے کی کوشش کریں تو پاکستان کا مجموعی تاثر بہتر ہو جائے گا۔ اگر پاکستان کی تصویر کا ہر پکسل اپنی جگہ پرفیکٹ ہو جائے تو پھر ہمارا پاکستان "پکسل پرفیکٹ پاکستان" بن سکتا ہے۔ 

تمام دوستوں ، ساتھیوں اور احباب کو یومِ آزادی پاکستان مبارک۔ ​



 پکسل، ایسے نقظوں کو کہتے ہیں کہ جن کی مدد سے ڈجیٹل تصویر مکمل ہوتی ہے۔ *

غزل ۔ اب جو خوابِ گراں سے جاگے ہیں

غزل

اب جو خوابِ گراں سے جاگے ہیں
پاؤں سر پر رکھے ہیں، بھاگے ہیں

خارِ حسرت بھرے ہیں آنکھوں میں
پاؤں میں خواہشوں کے تاگے ہیں

خوف ہے، وسوسے ہیں لیکن شُکر
عزم و ہمت جو اپنے آگے ہیں

رخت اُمید ہے سفر کی جاں
ساز و ساماں تو کچے دھاگے ہیں

تم سے ملنا تو اک بہانہ ہے
ہم تو دراصل خود سے بھاگے ہیں

لاگ لاگے نہیں لگی احمدؔ
ہم جو سوئے تو بھاگ جاگے ہیں

محمد احمدؔ​