ضرورت ہے ایک مشترکہ ووٹر کی



مئی 2013 میں خاکسار نے ایک پوسٹ انتخابی اتحاد کی اخلاقی حیثیت تحریر کی تھی اور اس میں اس حیرانی کا اظہار مقصود تھا کہ صرف انتخاب میں فتح کے حصول کے لئے علیحدہ علیحدہ نظریات کی حامل دو سیاسی جماعتوں کے درمیان اتحاد کیونکر ہو سکتا ہے اورووٹر کے استفسار پر اُن کے پاس اس طرح کے اتحاد کا کیا جواز رہ جاتا ہے کہ جہاں سیٹ کی بات ہو نظریات کو گٹھری میں بند کرکے اسٹور میں پھینک دیا جائے۔

آج بھی دو پمفلیٹ ایسے ملے ہیں جن میں ایک ن۔ لیگ اور پی پی پی کے مشترکہ اُمیدوار کی طرف سے ہے تو دوسرا تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی کے اُمید وار کے وقتی اتحاد کی داستان لئے ہوئے ہے۔

آپ بھی درشن کیجے:


مکمل تصویر دیکھنے کے لئے کلک کیجے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ن ۔ لیگ اور پی پی پی نے تو مشترکہ اُمیدوار کھڑا کر دیا لیکن ان دونوں کا مشترکہ ووٹر کہاں سے آئے گا۔ ن ۔ لیگ اور پی پی پی ایک دوسرے کی مخالف جماعتیں ہیں سمجھ نہیں آتا کہ ووٹر کس دل سے اس اُمیدوار کو ووٹ دے گا۔

دوسری طرف جماعتِ اسلامی ہے کہ جو اسپیکر کے انتخاب میں تو اپنا ووٹ ن ۔ لیگ کے حق میں استعمال کرتی ہے اور کراچی میں تحریکِ انصاف کے ساتھ مشترکہ اُمیدوار کھڑے کر دیتی ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ جماعتِ اسلامی کا سیاسی قبلہ کہاں ہے۔ اور مفادات کی سیاست میں نظریاتی سیاست کہاں رہ گئی ہے۔

پاکستان میں انقلاب اور نئے پاکستان کی باتیں کرنے والے تو بہت ہیں لیکن دیکھا جائے تو یہ سب نظریاتی سیاست بس نام کی ہی ہے۔ ہاں ایک نظریہ ہے جو ہمہ وقت کارفرما نظر آتا ہے اور وہ ہے نظریہ ء ضرورت۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں