دل خون رلائے گا جگر تنگ کرے گا ۔ شعیب تنویر شعیب


ہمارے دیرینہ اور عزیز دوست شعیب تنویر شعیب کی خوبصورت غزل قارئینِ بلاگ کی نذر:

غزل

دل خون رلائے گا جگر تنگ کرے گا
مجھ کو تیری چاہت کا سفر تنگ کرے گا

اس راہ محبّت میں قدم سوچ کے رکھنا
اک بوجھ سا بن جائے گا سر تنگ کرے گا

اس درجہ زمانہ ترا ہو جائے گا دشمن
سائے میں جو بیٹھے گا شجر تنگ کرے گا

دل چین نہ پائے گا کہیں تجھ سے بچھڑ کے
میں لاکھ سنبھالوں گا مگر تنگ کرے گا

اس گھر کی ہر اک چیز ستائے گی ترے بعد
دہلیز پہ بیٹھوں گا تو در تنگ کرے گا

مانا کہ ابھی اور ستائے گا یہ رستہ
میں لوٹ کے جاؤں گا تو گھر تنگ کرے کا

محبوب کی چوکھٹ سے اٹھالایا ہوں دل کو
اب لے کے اسے جاؤں کدھر، تنگ کرے گا

اے دل میں ترے ناز اٹھاؤں تو کہاں تک؟
!!!اب مار ہی ڈالوں گا اگر تنگ کرے گا

ہاں اور شعیب آپ کو رونا ہی پڑے گا
ہاں اور ابھی دیدہ تر تنگ کرے گا

شعیب تنویر شعیب

کراچی آرٹس کونسل میں خوش نویسی کی نمائش


منگل کے روز آرٹس کونسل کراچی میں کیلیگرافی ایگزیبیشن یعنی خوش نویسی / خطاطی کی سہ روزہ نمائش کا افتتاح ہوا ۔ یوں تو یہ نمائش ہر سال ماہِ رمضان میں منعقد ہو ا کرتی ہے لیکن اس بار حکومتی عہدے داروں کو اس غیر ضروری کام کے لئے فرصت ہی نہیں مل پا رہی تھی سو یہ کام رمضان میں نہ ہو سکا اور اُس کے بعد التوا در اِلتوا کا شکار رہا ۔ تاہم آخر کار یہ 15 ستمبر 2015 کو منعقد ہوا ۔ اور سُنا ہے کہ اس بار بھی کمشنر کراچی نہ پہنچ پائے۔

بہرکیف، ہم یوں تو آرٹس کونسل میں جا کر جھانکتے تک نہیں ہیں تاہم ہمارے ایک عزیز دوست محمد وسیم اور اُن کے تین دوست محمد شفیق، سلمان احمد اور نعیم سعید مغل اس نمائش میں حصہ لے رہے تھے تو ہم بھی کشاں کشاں اس موقع پر وہاں پہنچ گئے۔

نمائش میں نو آموز اور تجربہ کار دونوں ہی قسم کے فنکاروں کا کام شامل تھا اور بیشتر کام اسلامی خطاطی سے متعلق تھا۔ بہت سا کام ایسا بھی تھا کہ دیکھتے ہی کلمہ ء تحسین لبوں پر آ کر سج گیا۔ زیادہ تر کام آئل پینٹ سے کیا گیا تھا اور کچھ میں دیگر میڈیا بھی استعمال ہوا تھا۔ ہمارے دوست محمد وسیم اپنی مصروفیات کے باعث صرف ایک ہی شاہکار پیش کر سکے ۔ پاکستانی فنکاروں میں سے ایک بڑی تعداد ایسی ہے کہ جو زندگی کی گوں ناگوں مصروفیات میں سے بامشکل ہی اپنے شوق کے لئے وقت نکال پاتے ہیں اور اکثر زبانِ حال سے یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ:

ع- تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے

قارئین کی دلچسپی کے لئے کچھ تصاویر اس پوسٹ میں شامل کر رہے ہیں۔
(تصاویر چونکہ موبائل کیمرے سے لی گئی ہیں سو معیار زیادہ اچھا نہیں ہے۔)

ہمارے دوست محمد وسیم اپنے فن پارے کے ساتھ

محمد وسیم نمائش میں شرکت کی سند وصول کرتے ہوئے۔

محمد وسیم ، خاکسار اور محمد شفیق ، عقب میں محمد شفیق کے بنائے ہوئے دو فن پارے ۔

مزید کچھ فن پارے جو ہمیں پسند آئے۔













 فن یا آرٹ کے ذریعے ہم اپنی زندگی کے معمولات تو نہیں بدل سکتے لیکن تخلیقی ماحول سے قربت ہمارے محسوسات ضرور بدل سکتی ہے۔ آج کی زندگی بلاشبہ بہت مصروف ہے لیکن کبھی کبھار اس قسم کی تقاریب میں شرکت ہمارے روز و شب میں بہتری لانے میں اپنا کردار ضرور ادا کرتی ہے۔


افسانہ : مہربانی

مہربانی ​
محمداحمدؔ​

آج میں نے پوری سترہ گیندیں بیچیں۔ ایک دو نہیں ۔ پوری سترہ۔ جب سے اسکولوں کی چھٹیاں ہوئی ہیں آٹھ دس گیندیں بیچنا بھی مشکل ہو رہا تھا۔ لیکن آج ہم گھومتے گھومتے ایک بڑے سے پارک تک پہنچ گئے۔ اب پتہ چلا کہ اسکول بند ہو تو بچے کہاں جاتے ہیں۔

میں اور مُنی پارک کے دروازے پر ہی کھڑے ہوگئے۔ پارک میں آتے جاتے بچوں کو رنگ برنگی گیندیں اچھی لگتی تو اُن کے ماں باپ اُن کو خرید ہی دیتے۔ جب پوری سترہ گیندیں بِک گئیں تو منی نے کہا کہ اب چلتے ہیں۔ اُسے بھوک لگی تھی۔ بھوک تو مجھے بھی بہت لگی تھی لیکن میں چاہ رہا تھا کہ کچھ دیر اور رُک جائیں کیا پتہ دو چار گیندیں اور بِک جائیں۔ لیکن پھر مُنی نے بار بار کہا تو میں نے سوچا کہ اب پارک تو دیکھ ہی لیا ہے کل صبح سے یہیں آ جائیں گے۔

گیندوں کا تھیلہ اُٹھا کر میں اور مُنی سڑک پار آ گئے۔ یہاں سے کچھ دور وہ ہوٹل تھی جہاں سے ہم روٹی کھاتے تھے۔ میں نے ہوٹل والے چاچا سے چار روٹیاں (چپاتی) لیں اور سالن والے چاچا سے کہہ کر روٹی پر تھوڑا سا سالن ڈلوالیا۔ روٹی پر سالن ڈالنے سے ساری روٹی ٹھنڈی اور گیلی ہو جاتی تھی لیکن ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ الگ سے سالن خرید سکیں۔ میرے کہنے پر مُنی نے بھی اپنی روٹی پر سالن ڈلوالیا۔ روٹی لے کر ہم باہر رکھی میز کُرسی پر بیٹھ گئے۔ یہ میز کُرسی باہر بیٹھے دوکان والے کی تھی۔

*****​

مغرب کی نماز پڑھ کر میں اپنے پسندیدہ فاسٹ فوڈ ڈھابے پر آ گیا۔ تھی تو یہ فُٹ پاتھ پر لگی ایک چھوٹی سی ہوٹل لیکن یہاں کے چکن رول اور بوٹی کے رول کا ذائقہ کسی بھی اچھے فاسٹ فوڈ ریستوران سے کم نہیں تھا۔ جب کبھی میرا یا میرے دوستوں کا کچھ کھانے پینے کا موڈ ہوتا تو ہم یہاں آ جاتے۔ رول، تِکّوں کے علاوہ یہاں کچھ دیگر ڈشز بھی بڑی لاجواب ہوتی تھیں۔ آج میں یہاں اکیلا ہی چلا آیا تھا۔ بھوک تو مجھے نہیں تھی لیکن زبان کا چسکہ البتہ ضرور درکار تھا۔ میں نے اپنے لئے رول کا آرڈر دیا اور انتظار کرنے لگا۔

کچھ ہی دیر میں چکن رول معہ رائتہ اور ٹماٹر کی چٹنی میرے سامنے لا کر رکھ دیا گیا۔ گرم گرم رول کھانے کا الگ ہی مزہ ہے۔ میں نے بسمہ اللہ کرنے میں دیر نہیں لگائی رول کا لطف لیتے ہوئے گرد و پیش کا جائزہ لینے لگا۔ میں جس میز پر بیٹھا تھا وہ پلاسٹک کی تھی ایسی میزیں آج کل گھروں میں لان وغیرہ میں استعمال ہوتی ہیں۔ میز سڑک کے کنارے فُٹ پاتھ پر لگی ہوئی تھی اس سے ذرا سا آگے ایسی ہی ایک میز اور بھی تھی۔ دونوں میزوں کے ساتھ چار چار کُرسیاں تھیں۔

میرے سامنے والی میز پر ایک بچہ کہیں سے تیز تیز چلتا ہوا آیا اور اپنے ہاتھ میں موجود چیز میز پر رکھ دی اور تیزی کے ساتھ کُرسی پر بیٹھ گیا۔ وہ کہیں سے اخبار میں لپٹی چپاتیاں لایا تھا جس پر چنے کا سالن لتھڑا ہوا تھا۔ سالن میں موجود روغن کو گرنے سے بچانے کے لئے وہ کبھی روٹی کو ایک طرف سے اُٹھا تا تو کبھی دوسری طرف سے۔ یا شاید وہ اس طرح ساری روٹی کو سالن سے تر کرنا چاہ رہا تھا۔ سالن بھی کیا تھا کہ اُس میں بامشکل چار چھ چنے کے دانے تھے اور باقی روغن تھا۔ شاید اس بچے نے سالن مفت میں روٹی پر ڈلوا لیا تھا۔ ابھی میں بچے کا جائزہ لے ہی رہا تھا کہ اُس بچے کے سامنے ایک اور چھوٹی بچی آ کر بیٹھ گئی۔ اُس کے ہاتھ میں بھی ایسی ہی روٹی تھی جس پر سالن لتھڑا ہوا تھا اور وہ بھی سالن روٹی کے ساتھ کافی اُلجھن کا شکار نظر آ رہی تھی۔ دونوں بچوں کی عمریں گیارہ بارہ سال سے زیادہ نہیں تھیں۔ اب بچے بڑی انہماک کے ساتھ کھانے میں لگے ہوئے تھے۔ بچوں کی میز کے ساتھ ایک بڑا سا شفاف تھیلا رکھا تھا جس میں رنگ برنگی گیندیں تھیں۔

اب سمجھ میں آ رہا تھا کہ کھیلنے کی عمر میں یہ بچے اتنی ساری گیندیں لیے کیوں مارے مارے پھر رہے تھے اور رنگ برنگی گیندوں کے انبار کے باوجود اُن کی ساری دلچسپی روغن میں لپٹی چپاتیوں میں کیوں تھی۔

مجھے اُن بچوں پر بڑا ترس آیا کہ بے چارے کس کسمپرسی کی حالت میں جی رہے ہیں۔ نہ جانے ان کے ماں باپ کون ہیں۔ ہیں بھی یا نہیں؟ شاید ان کا باپ کہیں نشے میں دُھت پڑا ہو اور معصوم بچے اس کم عمری میں بھوک کے عفریت سے لڑنے میں لگے ہوئے ہیں۔

میں اپنا کھانا پورا کر کے اُٹھا تو پیسے دیتے ہوئے میں نے اُسے دو رول اور بنانے کو کہا۔ اُس نے دو چار منٹ میں ہی دو رول تیار کر دیے۔ بچوں کی روٹی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ فاسٹ فوڈ والے نے اُنہیں میز پر سے اُٹھا دیا، وہ نئے آنے والے گاہکوں کے لئے جگہ بنا رہا تھا۔ بچے ایک بند دوکان کے چبوترے پر جا کر بیٹھ گئے۔ میں نے باقی بچنے والے پیسے جیب میں رکھے اور آگے بڑھ کر دونوں بچوں کو ایک ایک رول تھما دیا۔ بچوں کے چہرے پر شکر گزاری نہیں تھی۔ بلکہ وہاں حیرت تھی۔ صرف حیرت۔

*****​

کل بھائی نے سترہ گیندیں بیچیں تھیں۔ پوری سترہ۔
ہم نے ایک پارک دیکھا تھا۔ بہت بڑا پارک۔ اندر بہت بڑے بڑے جھولے تھے۔ اور بھی بہت کچھ ہوگا لیکن ہم اندر نہیں گئے۔ ہمیں نیلے کپڑوں والے چاچا نے اندر جانے ہی نہیں دیا۔ پارک میں اتنے لوگ، اتنے بچے آ جا رہے تھے کہ ہماری سترہ گیندیں بِک گئیں۔
پھر ہم کھانے کی ہوٹل پر گئے تو ہمیں ایک آدمی نے دو روٹیاں دیں۔ یہ تلی ہوئی روٹیاں تھیں اور اس کے اندر بوٹیاں بھی تھیں۔
میں تو ڈر رہی تھی۔ میں نے بھائی سے کہا مت کھاؤ۔ پتہ نہیں اس نے کیا ملایا ہوگا۔ لیکن بھائی فوراً ہی کھانا شروع ہو گیا۔ پھر میں نے بھی کھائیں۔ یہ بہت مزے کی تھیں۔ اُس دن بھائی بہت خوش تھا اور میں بھی۔ ہم اتنے خوش تھے کہ اماں کے لئے روٹی لے جانا بھی بھول گئے اور ہمیں آدھے راستے سے واپس آنا پڑا۔ وہ بھی میں نے ہی بھائی کو یاد دلایا۔
آج بھی ہم اُسی پارک گئے تھے۔ لیکن آج صرف بارہ گیندیں بِکیں۔
آج بھائی نے کھانا بھی نہیں کھایا۔ وہ تو بس باہر والی ہوٹل پر آنے جانے والوں کو دیکھے جا رہا تھا۔
میں نے اُسے کہا ۔" بھائی کھانا کیوں نہیں کھا رہے؟"
وہ مجھ پر ہی غصہ ہوگیا اور بولا "مجھے نہیں اچھے لگتی یہ گیلی روٹی اور چنے کا سالن!"
پھر وہ روٹی چھوڑ کر ہی ہوٹل سے اُٹھ گیا۔
لیکن میں نے روٹی اُٹھا لی۔ مجھے پتہ تھا گھر پر اماں بھوکی ہوگی۔

  *****​