سڑکوں پر اِک سیلِ بلا تھا لوگوں کا

غزل

سڑکوں پر اِک سیلِ بلا تھا لوگوں کا
میں تنہا تھا، اِس میں کیا تھا لوگوں کا

دنیا تھی بے فیض رِفاقت کی بستی
جیون کیا تھا ،اِک صحرا تھا لوگوں کا

سود و زیاں کے مشکیزے پر لڑتے تھے
دل کا دریا سوکھ گیا تھا لوگوں کا

میں پہنچا تو میرا نام فضا میں تھا
ہنستے ہنستے رنگ اُڑا تھا لوگوں کا

نفرت کی تحریریں ہر سو لکھی تھیں
دیواروں پہ رنگ چڑھا تھا لوگوں کا

میں اُن کو، وہ مجھ کو دیکھ کے ڈرتے تھے
شہرِ ستم تھا، خوف بجا تھا لوگوں کا

کچھ لوگوں نے نفرت بوئی ،لوگوں میں
پھر سڑکوں پر خون بہا تھا لوگوں کا

ہنسنا بُھولے، ہنسی اُڑانا سیکھ لیا
پہلے کب یہ رنگ ہوا تھا لوگوں کا

اب جو کہیں تو کس کو باور آئے گا
مہر و مروّت طور رہا تھا لوگوں کا

دنیا میں تھا احمدؔ، دنیا سے عاجز
خود کو گنوا کر سوچ رہا تھا لوگوں کا

محمد احمدؔ​

2 تبصرے: