عشق میں کتنا نام کمایا جا سکتا ہے ۔ عباس تابشؔ

غزل

پانی آنکھ میں بھر کر لایا جاسکتا ہے
اب بھی جلتا شہر بچایا جا سکتا ہے

ایک محبت اور وہ بھی ناکام محبت
لیکن اس سے کام چلایا جا سکتا ہے

دل پر پانی پینے آتی ہیں امیدیں
اس چشمے میں زہر ملایا جا سکتا ہے

مجھ بدنام سے پوچھتے ہیں فرہاد و مجنوں
عشق میں کتنا نام کمایا جا سکتا ہے

یہ مہتاب یہ رات کی پیشانی کا گھاؤ
ایسا زخم تو دل پر کھایا جا سکتا ہے

پھٹا پرانا خواب ہے میرا پھر بھی تابش
اس میں اپنا آپ چھپایا جا سکتا ہے

عباس تابشؔ

ناخداؤ! تمھیں خدا پوچھے​

غزل​

ڈوبتی ناؤ تم سے کیا پوچھے
ناخداؤ! تمھیں خدا پوچھے​

کس کے ہاتھوں میں کھیلتے ہو تم
اب کھلونوں سے کوئی کیا پوچھے​

ہم ہیں اس قافلے میں قسمت سے
رہزنوں سے جو راستہ پوچھے​

!ہے کہاں کنجِ گل ، چمن خورو
کیا بتاؤں اگر صبا پوچھے​

اٹھ گئی بزم سے یہ رسم بھی کیا
ایک چپ ہو تو دوسرا پوچھے ​

لیا قت علی عاصم​