زمیں زادے چلو باتیں کریں شہرِ تمنا کی

نظم

زمیں زادے چلو باتیں کریں شہرِ تمنا کی 
یہاں تو شام سے پہلے ہی سورج ڈوب جاتا ہے
یہاں ہر خواب سے پہلے ہی نیندیں چونک اُٹھتی ہیں
بہاریں یوں گزرتی ہیں کہ جیسے وقت سے ان کی کوئی ازلی  عداوت ہو
کوئی بادل نہیں رُکتا، ہوائیں بے مروت ہیں
ہوئی صدیاں کے آنکھوں میں کوئی سورج نہیں چمکا
کوئی شبنم نہیں اُتری،  کوئی موتی نہیں دمکا
چلو یہ تو ہماری کم نگاہی کی سزا ٹھہری
مگر ہم خواب نہ دیکھیں تو نیندیں بے ثمر اپنی
سماعت بے خبر اپنی، سزا  نا معتبر اپنی

زمیں زادے چلو باتیں کریں شہرِ تمنا کی
یہ باتیں جو سُلگتی ہیں مگر کرنیں نہیں بنتیں
انہیں روشن اگر کر پاؤ تو کتنے سخی  ٹھہرو
مگر کیا  کر سکو گے تم؟  مگر کیا کرسکیں گے ہم
کہ ہم اس شہر میں بے خواب راتوں کے حوالے ہیں
زمیں زادے  زمیں پر بسنے، والے تھکنے والے ہیں

شاعر :   نا معلوم

بہ شکریہ "یہ شام شام زندگی" برائے رومن ورژن

کچھ خانماں برباد تو سائے میں کھڑے ہیں ۔ رسا چغتائی

غزل

کچھ خانماں برباد تو سائے میں کھڑے ہیں
اس دور کے انساں سے تو یہ پیڑ بھلے ہیں

چیونٹی کی طرح رینگتے لمحوں کو نہ دیکھو
اے ہمسفرو! رات ہے اور کوس کڑے ہیں

پتھر ہیں تو رستےسے ہٹا کیوں نہیں دیتے
رہرو ہیں تو کیوں صورتِ دیوار کھڑے ہیں

میں، ہیچ سخن، ہیچ مداں، ہیچ عبارت
کہتا یوں تو کہتے ہیں کہ الفاظ بڑے ہیں

تاریخ بتائے گی کہ ہم اہلِ قلم ہی
آزادئ انساں کے لیے جنگ لڑے ہیں

رسا چغتائی

الگ تھلگ رہے کبھی، کبھی سبھی کے ہو گئے

غزل


الگ تھلگ رہے کبھی، کبھی سبھی کے ہو گئے
جنوں کا ہاتھ چُھٹ گیا تو بے حسی کے ہو گئے

طلب کی آنچ کیا بجھی، بدن ہی راکھ ہو گیا
ہوا کے ہاتھ کیا لگے، گلی گلی کے ہو گئے

بہت دنوں بسی رہی تری مہک خیال میں
بہت دنوں تلک ترے خیال ہی کے ہوگئے

چراغِ شام بجھ گیا تو دل کے داغ جل اُٹھے
پھر ایسی روشنی ہوئی کہ روشنی کے ہو گئے

سخن پری نے ہجر کو بھی شامِ وصل کر دیا
تری طلب سِوا ہوئی تو شاعری کے ہوگئے


محمد احمدؔ​

نظم ۔۔۔ میں اور تو ۔۔۔ احمد فرازؔ


روز جب دھوپ پہاڑوں سے اترنے لگتی
کوئی گھٹتا ہوا بڑھتا ہوا بے کل سایہ
ایک دیوار سے کہتا کہ میرے ساتھ چلو
اور زنجیرِ رفاقت سے گریزاں دیوار
اپنے پندار کے نشے میں سدا ایستادہ
خواہشِ ہمدمِ دیرینہ پہ ہنس دیتی تھی
کون دیوار کسی سائے کے ہمراہ چلی
کون دیوار ہمیشہ مگر ایستادہ رہی
وقت دیوار کا ساتھی ہے نہ سائے کا رفیق
اور اب سنگ و گل و خشت کے ملبے کے تلے
اسی دیوار کا پندار ہے ریزہ ریزہ
دھوپ نکلی ہے مگر جانے کہاں ہے سایہ

احمد فرازؔ