نظم : منظر سے پس منظر تک


کھڑکی پر مہتاب ٹکا تھا
رات سنہری تھی
اور دیوار پہ ساعت گنتی
سَوئی سَوئی گھڑی کی سُوئی
چلتے چلتے سمت گنوا کر غلطاں پیچاں تھی
میں بھی خود سے آنکھ چُرا کر
اپنے حال سے ہاتھ چھڑا کر
برسوں کو فرسنگ بنا کر
جانے کتنی دور چلا تھا 
جانے کس کو ڈھونڈ رہا تھا
دھندلے دھندلے چہرے کیسے رنگ رنگیلے تھے
پیلے پیلے پھول تھے، آنچل نیلے نیلے تھے
کیا چمکیلی آنکھیں ، کیسے خواب سجیلے تھے
لیکن آنکھیں نم تھیں، منظر سِیلے سیلے تھے
اک چہرہ تھا روشن جیسے چاند گھٹاؤں میں
اک مسکان تھی جیسے بکھریں رنگ فضاؤں میں
منظر منظر تکتا جاتا ، چلتا جاتا میں
اِ س منظر سے اُس منظر تک بڑھتا جاتا میں
اک تصویر کو رُک کر دیکھا ، رُک نہیں پایا میں
اِس کھڑکی سے اُس آنگن تک جھُک نہیں پایا میں
جیسے اُس شب چلتے رہنا قسمت ٹھیری تھی
میرے تعاقب میں 
یادوں کی پچھل پیری تھی

محمد احمدؔ

1 تبصرہ: