پیرزادہ قاسم کی دو خوبصورت غزلیں



سفر نصیب ہیں ہم کو سفر میں رہنے دو
سفالِ جاں کو کفِ کوزہ گر میں رہنے دو

ہمیں خبر ہے کسے اعتبار کہتے ہیں
سخن گروں کو صفِ معتبر میں رہنے دو

تمھاری خیرہ سری بھی جواز ڈھونڈے گی
بلا سے کوئی بھی سودا ہو سر میں رہنے دو

یہ برگ و بار بھی لے جاؤ چُوبِ جاں بھی مگر
نمو کی ایک رمق تو شجر میں رہنے دو

اسیر کب یہ قفس ساتھ لے کے اُڑتے ہیں
رہے جو حسرتِ پرواز پر میں رہنے دو

----

میں سمجھا مری گھٹن مٹانے آیا تھا
وہ جھونکا تو دیا بجھانے آیا تھا

موسمِ گل اُس بار بھی آیا تھا لیکن
کیا آیا بس خاک اُڑانے آیا تھا

چشم زدن میں ساری بستی ڈوب گئی
دریا کس کی پیاس بجھانے آیا تھا

مہر نشاں، زرکار قبا، وہ یار مرا
مجھ کو سنہرے خواب دکھانے آیا تھا

خالی چھتری دیکھ فسردہ لوٹ گیا
بچھڑا پنچھی اپنے ٹھکانے آیا تھا


پیرزادہ قاسم

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں