دل میں وحشت جگا رہی ہوگی - عبید الرحمٰن عبیدؔ

غزل

دل میں وحشت جگا رہی ہوگی
خواہشِ نا رسا رہی ہوگی

وہمِ دستک بُلا رہا ہوگا
در پہ وحشی ہوا رہی ہوگی

یہ جو کارِ نفس کی تہمت ہے
جانے کس کی دعا رہی ہوگی

یہ  جو آرام سا ہے کچھ دل کو
درد کی انتہا رہی ہوگی

بے بسی کی دریدہ چادر میں
بھولی بِسری وفا رہی ہوگی

ہم بھی  روٹھے ہوئے ہیں کچھ اُس سے
زندگی بھی خفا رہی ہوگی

ارتقا میں عبیدؔ بس حائل
اپنی سرکش انا رہی ہوگی

ؔعبید الرحمٰن عبید

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں