ریوڑوں کی قطاروں میں گم ہوگئے دن کے رستے تو آنکھیں کھلی رہ گئیں

غزل


ریوڑوں کی قطاروں میں گم ہوگئے دن کے رستے تو آنکھیں کھلی رہ گئیں
لوٹ کے گھر نہ آئے سدھائے ہوئے جب پرندے تو آنکھیں کھلی رہ گئیں

آڑوؤں کے وہ پودے جو آنگن میں تھے، اُن کی خوشبوئیں پھل پھول بکِنے لگے
جانے والے سمندر کے اُس پار سے گھر کو لوٹے تو آنکھیں کھلی رہ گئیں

میں نے بیوی کو جھڑکا تو خود میرا خوں مُتّحد  ہو کے میرے مقابل ہوا
اپنی ماں کی طرف ایک دم ہوگئے میرے بچے، تو آنکھیں کھلی رہ گئیں

جو تلاشِ صفِ دشمناں کی مہم میں میرے ساتھ پھرتے رہے شام تک
شب کو دیکھے جو میں نے وہی گھات میں چند چہرے تو آنکھیں کھلی رہ گئیں

پربتوں گھاٹیوں کا سفر دائرہ تھا کہ اک واہمہ تھا یہ کُھلتا نہیں
جس جگہ ہم ملے تھے اسی موڑ پر آ کے بچھڑے تو آنکھیں کھلی رہ گئیں

دوپہر کا عمل، منجمد ساعتیں، آسماں پاؤں میں تھا، زمیں سر پہ تھی
اب کے پہلے سے انورؔ ذرا مختلف خواب دیکھے تو آنکھیں کھلی رہ گئیں

انور جمال

جانے ہم کون ہیں؟


جانے ہم کون ہیں؟

جانے کب سے
مجھے یاد بھی تو نہیں جانے کب سے
ہم اک ساتھ گھر سے نکلتے ہیں
اور شام کو
ایک ہی ساتھ گھر لوٹتے  ہیں
مگر ہم نے اک دوسرے سے
کبھی حال پرسی نہیں کی
نہ اک دوسرے کو
کبھی نام لے کر مخاطب کیا
جانے ہم کون ہیں؟ 

جون ایلیا

خراب ہوں کہ جنوں کا چلن ہی ایسا تھا ۔ شاذ تمکنت

غزل

خراب ہوں کہ جنوں کا چلن ہی ایسا تھا
کہ ترا حسن، مرا حسنِ ظن ہی ایسا تھا

ہر ایک ڈوب گیا اپنی اپنی یادوں میں
کہ ترا ذکر سرِ انجمن ہی ایسا تھا

بہانہ چاہیے تھا جوئے شیر و شیریں کا
کوئی سمجھ نہ سکا تیشہ زن ہی ایسا تھا

حدِ ادب سے گریزاں نہ ہو سکا کوئی
کہ سادگی میں، ترا بانکپن ہی ایسا تھا

رفاقتوں میں بھی نکلیں رقابتیں کیا کیا
میں کیا کہوں ترا روئے سخن ہی ایسا تھا

جہاں بھی چھاؤں ملی، دو گھڑی کو بیٹھ رہے
دیارِ غیر کہاں تھا، وطن ہی ایسا تھا

تھی داغ داغ مرے قاتلوں کی خوش پوشی
کہ عمر بھر مرے سر پر کفن ہی ایسا تھا

مجھے تو یوں لگا ترشا ہوا تھا شعلہ کوئی
بدن ہی ایسا تھا  کچھ پیرہن ہی ایسا تھا

حقیقتوں میں بھی تھی شاذؔ  رنگ آمیزی
قصیدۂ لب و عارض کا فن ہی ایسا تھا

شاذ تمکنت

غزل ۔ خاک اُڑتی ہے اس جہان میں کیا ۔ رسا چغتائی

غزل

خاک اُڑتی ہے اس جہان میں کیا
پھول کھلتے ہیں آسمان میں کیا

عشق تیرے خیال میں کیا ہے
زندگی ہے ترے گُمان میں کیا

میں جو حیرت زدہ سا رہتا ہوں
بات آتی ہے تیرے دھیان میں کیا

نیند آرام کر رہی ہے ابھی
تیری پلکوں کے سائبان میں کیا

کیا ہوئے وہ شکست خوردہ لوگ
آگئے سب تری امان میں کیا

تجھ سے یہ تیرے حاشیہ بردار
اور کہتے بھی میری شان میں کیا

پوچھتا ہے مکاں کا سناٹا
میں ہی رہتا ہوں اس مکان میں کیا

ہم ہیں خود آپ رو برو اپنے
اور ہیں خود ہی درمیان میں کیا

وہ جو کھڑکی کھلی سی رہتی ہے
جھانکتی ہے مرے مکان میں کیا

حال اپنا بھی کیا یہی ہو گا
ذکر آئے گا داستان میں کیا

جب کیے دُکھ بیاں اُسی سے کیے
بات ایسی ہے اس چٹان میں کیا

اچھے لگتے ہیں آن بان کے لوگ
جانے ہوتا ہے آن بان میں کیا

دل سے جب دل کلام کرتا ہے
لفظ آتے ہیں درمیان میں کیا

کیا ہوئے میرے خاندان کے لوگ
ایک میں ہی تھا خاندان میں کیا

جمع کیجے نہ درد و غم تو رساؔ
کیجیے اور اس جہان میں کیا

رساؔ چغتائی

وا میرے وطن ۔۔۔ ترجمہ ۔۔۔۔ از فیض احمد فیض

وا  میرے وطن 

ترجمہ از فیض احمد فیض


او میرے وطن! او میرے وطن! او میرے وطن!
مرے سر پر وہ ٹوپی نہ رہی 
جو تیرے دیس سے لایا تھا
پاؤں میں وہ اب جوتے بھی نہیں
واقف تھے جو تری راہوں سے
مرا آخری کُرتا چاک ہُوا 
ترے شہر میں جو سلوایا تھا
اب تیری جھلک 
بس اُڑتی ہوئی رنگت ہے میرے بالوں کی
یا جُھریّاں مرے ماتھے پر 
یا میرا ٹوٹا ہُوا دل ہے 
وا میرے وطن ! وا میرے وطن ! وا میرے وطن

شامِ شہرِ یاراں سے انتخاب

لَو دیے کی نگاہ میں رکھنا ۔ رسا چغتائی

شہرِ کراچی کے صاحب ِ طرز شاعر رسا چغتائی کی دو غزلیں آپ کے ذوق کی نظر کی جارہی ہیں۔  رسا کے شعری مجموعوں میں"تیرے آنے کا انتظار رہا" سب سے آخر میں شائع ہوئی  ہے جبکہ اس سے پہلے ان کے چار شعری مجموعے ریختہ، زنجیرِ ہمسائیگی، تصنیف اور چشمہ ٹھنڈے پانی کا کے نام سے آ چکے ہیں۔ 

رسا چغتائی کا مختصر سا تعارف محترم  قمر جمیل کی زبانی بھی  نذرِ قارئین کیا جا رہا ہے۔  

رسا چغتائی سید ابو العلا ابولعلائی  سلسلے کے ایک بزرگ عارفی سے بیت ہے۔ والد کا نام مرزا محمود علی بیگ  اور خود اُس کا نام مرزا محتشم علی بیگ ہے۔ یگانہ کی طرح یہ بھی چنگیزی ہے۔ مگر لہجہ میں کڑوا پن نہیں ۔ سوائی ۔ مادھوپور کا رہنے والا یہ شخص ۔ چاروں طرف پہاڑ اور بیچ میں اس کا قصبہ تھا۔ آج بھی  اس کے چاروں طرف پہاڑ ہیں اور بیچ میں اس کا قصبہ ہے۔ اس کی شاعری قصبے سے طلوع ہونے والے  غمزدہ چاند کی طرح ہے جس کے سامنے ایک بیکراں رات ہے۔ شاعرانہ علم کی بیکراں رات! جس میں اس کے دکھوں کے داغ چاند کے داغوں کی طرح چمکتے ہیں اور چمکتے ہیں نہیں ، ہمارے آس پاس گھومنے لگتے ہیں! اور اندھیروں میں شاعری کی نئی روشنی جنم لیتی ہے۔ شاعری کی نئی روشنی رسا چغتائی کے چہرے پر بھی پڑ رہی ہے۔ 

 پہلی غزل

کیسے کیسے خواب دیکھے، دربدر کیسے ہوئے
کیا بتائیں روز و شب اپنے بسر کیسے ہوئے

نیند کب آنکھوں میں آئی، کب ہوا ایسی چلی
سائباں کیسے اُڑے، ویراں نگر کیسے ہوئے

کیا کہیں وہ زُلفِ سرکش کس طرح ہم پر کھلی
ہم طرف دار ہوائے راہگُزر کیسے ہوئے

حادثے ہوتے ہی رہتے ہیں مگر یہ حادثے
اک ذرا سی زندگی میں، اس قدر کیسے ہوئے

ایک تھی منزل ہماری، ایک تھی راہِ سفر
چلتے چلتے تم اُدھر، اور ہم اِدھر کیسے ہوئے

**** 

دوسری غزل

خواب اُس کے ہیں جو چُرا لے جائے
نیند اُس کی ہے جو اُڑا لے جائے

زُلف اُس کی ہے جو اُسے چھولے
بات اُس کی ہے جو بنا لے جائے

تیغ اُس کی ہے شاخِ گُل اُس کی
جو اُسے کھینچتا ہوا لے جائے

یوں تو اُس پاس کیا نہیں پھر بھی
ایک درویش کی دعا لے جائے

زخم ہو تو کوئی دہائی دے
تیر ہو تو کوئی اُٹھا لے جائے

قرض ہو تو کوئی ادا کردے
ہاتھ ہو تو کوئی چُھڑا لے جائے

لَو دیے کی نگاہ میں رکھنا
جانے کس سمت راستہ لے جائے

دل میں آباد ہیں جو صدیوں سے
ان بُتوں کو کہاں خدا لے جائے

خواب ایسا کہ دیکھتے رہیے
یاد ایسی کہ حافظہ لے جائے

میں غریب الدّیار، میرا کیا
موج لے جائے یا ہَوا لے جائے

خاک ہونا ہی جب مقدّر ہے
اب جہاں بختِ نارسا لے جائے

****