عبیداللہ علیم کی دو خوبصورت غزلیں


عبیداللہ علیم کی دو خوبصورت غزلیں

وہ خواب خواب فضائے طرب نہیں آئی
عجیب ہی تھی وہ شب، پھر وہ شب نہیں  آئی

جو جسم و جاں سے چلی جسم و جاں تلک پہنچی
وہ موجِ گرمیٔ    رخسار و لب نہیں  آئی

تو پھر چراغ تھے ہم بے چراغ راتوں کے
پلٹ کے گزری ہوئی رات جب نہیں آئی

عجب تھے حرف  کی لذت میں جلنے والے لوگ
کہ خاک ہوگئے خوئے ادب نہیں آئی

جو ابر بن کے برستی ہے روحِ ویراں پر
بہت دنوں سے وہ آوازِ رب نہیں آئی

صدا لگائیں اور اپنا مذاق اُڑوائیں
یہ اہلِ درد پہ اُفتاد کب نہیں آئی

کیا ہے اپنے ہی قدموں نے پائمال بہت 
یہ ہم میں کج کلہی بے سبب نہیں آئی

*******

ہجر کرتے یا کوئی وصل گوارا کرتے 
ہم بہرحال بسر خواب تمھارا کرتے

ایک ایسی بھی گھڑی عشق میں آئی تھی کہ ہم
خاک کو ہاتھ لگاتے تو ستارہ کرتے

اب تو مل جاؤ ہمیں تم کہ تمھاری خاطر
اتنی دُور آگئے دُنیا سے کنارہ کرتے

محوِ آرائشِ رُخ ہے وہ قیامت سرِ بام
آنکھ اگر آئینہ ہوتی تو نظارہ کرتے

ایک چہرے میں تو ممکن نہیں اتنے چہرے
کس سے کرتے جو کوئی عشق دوبارہ کرتے

جب ہے یہ خانۂ دل آپ کی خلوت کے لئے 
پھر کوئی آئے یہاں کیسے گوارا کرتے

کون رکھتا ہے اندھیرے میں دیا، آنکھ میں خواب
تیری جانب ہی ترے لوگ اشارہ کرتے

ظرفِ آئینہ کہاں اور ترا حُسن کہاں
ہم ترے چہرے سے آئینہ سنوارا کرتے


عبید اللہ علیمؔ