تم مسیحا نہیں ہوتے ہو تو قاتل ہو جاؤ

غزل

میرے ہونے میں کسی طور تو شامل ہو جاؤ
تم مسیحا نہیں ہوتے ہو تو قاتل ہو جاؤ

دشت سے دُور بھی کیا رنگ دکھاتا ہے جنوں
دیکھنا ہے تو کسی شہر میں داخل ہو جاؤ

جس پہ ہوتا ہی نہیں خونِ دو عالم ثابت
بڑھ کے اک دن اسی گردن میں حمائل ہو جاؤ

وہ ستم گر تمھیں تسخیر کیا چاہتا ہے
خاک بن جاؤ اور اس شخص کو حاصل ہو جاؤ

عشق کیا کارِ ہوس بھی کوئی آسان نہیں
خیر سے پہلے اسی کام کے قابل ہو جاؤ

ابھی پیکر ہی جلا ہے تو یہ عالم ہے میاں
آگ یہ روح میں لگ جائے تو کامل ہو جاؤ

میں ہوں یا موجِ فنا اور یہاں کوئی نہیں
تم اگر ہو تو ذرا راہ میں حائل ہو جاؤ

عرفان صدیقی

4 تبصرے: