تم مسیحا نہیں ہوتے ہو تو قاتل ہو جاؤ

غزل

میرے ہونے میں کسی طور تو شامل ہو جاؤ
تم مسیحا نہیں ہوتے ہو تو قاتل ہو جاؤ

دشت سے دُور بھی کیا رنگ دکھاتا ہے جنوں
دیکھنا ہے تو کسی شہر میں داخل ہو جاؤ

جس پہ ہوتا ہی نہیں خونِ دو عالم ثابت
بڑھ کے اک دن اسی گردن میں حمائل ہو جاؤ

وہ ستم گر تمھیں تسخیر کیا چاہتا ہے
خاک بن جاؤ اور اس شخص کو حاصل ہو جاؤ

عشق کیا کارِ ہوس بھی کوئی آسان نہیں
خیر سے پہلے اسی کام کے قابل ہو جاؤ

ابھی پیکر ہی جلا ہے تو یہ عالم ہے میاں
آگ یہ روح میں لگ جائے تو کامل ہو جاؤ

میں ہوں یا موجِ فنا اور یہاں کوئی نہیں
تم اگر ہو تو ذرا راہ میں حائل ہو جاؤ

عرفان صدیقی

فرار


کبھی کبھی دل چاہتا ہے اس دنیا سے کہیں بھاگ جاؤں یا کم از کم ایسی جگہ جہاں کوئی جاننے والا نہیں ہو کہ جاننے والے سب کچھ جان کر بھی کچھ نہیں جانتے۔ اجنبی اس لئے اچھے نہیں ہوتے کہ وہ اجنبی ہوتے ہیں بلکہ وہ صرف اس لئے اچھے ہوتے ہیں کہ اُنہیں آپ سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ لیکن دل کا کیا کہیے صاحب، دل تو دل ہے اسے کون سمجھا سکتا ہے، اسے تڑپتے رہنے دینا چاہیے تاکہ اسے بھی کچھ سکون ملے اور آپ کو بھی۔

مفقود جہاں تھے سبھی آثارِ فضیلت

غزل

مفقود جہاں تھے سبھی آثارِ فضیلت
واں ناز سے باندھی گئی دستارِ فضیلت

میں سادہ روش بات نہ سمجھا سکا اُن کو
حائل تھی کہیں بیچ میں دیوارِ فضیلت

کردار ہی جب اُس کے موافق نہ اگر ہو
کس کام کی ہے آپ کی گفتارِ فضیلت

آؤ کہ گلی کوچوں میں بیٹھیں، کریں باتیں
دربارِ فضیلت میں ہے آزارِ فضیلت

اب صوفی و مُلا بھی ہیں بازار کی رونق
اب سجنے لگے جا بجا بازارِ فضیلت

آیا ہے عجب زہد فروشی کا زمانہ
رائج ہوئے ہیں درہم و دینارِ فضیلت

آنکھوں میں ریا، ہونٹوں پہ مسکان سجائے
ملتے ہیں کئی ایک اداکارِ فضیلت

بس علم و حلم، عجز و محبت ہو جس کے پاس
گر ہے کوئی تو وہ ہے سزاوارِ فضیلت

احمدؔ وہ اگر رمزِ سخن پا نہیں سکتے
ہوتے ہیں عبث آپ گناہگارِ فضیلت


محمد احمدؔ

جشنِ آزادی مبارک


جشنِ آزادی مبارک 

اُن تمام دوستوں کو جو پاکستان سے محبت کرتے ہیں اور محنت اور ترقی کی راہیں اپنا کر اس ملک کا وقار بلند کر رہے ہیں اور اُنہیں بھی جو پاکستان سے خائف ہیں اور اپنی ترقی کی راہ میں پاکستان کو رکاوٹ سمجھتے ہیں اور ہمیشہ شکایتیں ہی کرتے نظر آتے ہیں۔

ایسے لوگوں کو ہم کچھ نہیں کہیں گے کہ احمد فراز پہلے ہی کہہ چکے ہیں:

شکوہِ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

ایک نغمہ آپ سب کی نذر