جنوری پھر لوٹ آئی ہے - اعزاز احمد آذر

ہواؤں کے ہاتھ پیغام

وہی گلیاں وہی کوچہ وہی سردی کا موسم ہے
اسی انداز سے اپنا نظامِ زیست برہم ہے

یہ حسنِ اتفاق ایسا کہ پھیلی چاندنی بھی ہے
وہی ہر سمت ویرانی، اداسی، تشنگی سی ہے

وہی ہے بھیڑ سوچوں کی، وہی تنہائیاں پھر سے
مسافر اجنبی اور دشت کی پہنائیاں پھر سے

مجھے سب یاد ہے کچھ سال پہلے کا یہ قصہ ہے
وہی لمحہ تو ویرانے کا اک آباد حصہ ہے

مری آنکھوں میں وہ اک لمحہء موجود اب بھی ہے
وہ زندہ رات میرے ساتھ لاکھوں بار جاگی ہے

کسی نے رات کی تنہائی میں سرگوشیاں کی تھیں
کسی کی نرم گفتاری نے دل کو لوریاں دی تھیں

کسی نے میری تنہائی کا سارا کرب بانٹا تھا
کسی نے رات کی چنری میں روشن چاند ٹانکا تھا

چمکتے جگنوؤں کا سیل اک بخشاتھا راتوں کو
دھڑکتا سا نیا عنواں دیا تھا میرے خوابوں کو

مرے شعروں میں وہ الہام کی صورت میں نکلا تھا
معانی بن کے جو لفظوں میں پہلی بار دھڑکا تھا

وہ جس کے بعد گویا زندگی نوحہ سرائی ہے
"اُسے کہنا" کہ بھیگی جنوری پھر لوٹ آئی ہے

اعزاز احمد آذر ؔ کی " دھیان کی سیڑھیاں" سے انتخاب

2 تبصرے: