دو شاعر ایک ترنگ



ایک خوبصورت بحر میں دو بہت اچھی غزلیں آپ کے ذوق کی نظر۔


پہلی غزل سلیم کوثر کی


غزل

اس عالمِ حیرت و عبرت میں کچھ بھی تو سراب نہیں ہوتا
کوئی نیند مثال نہیں بنتی کوئی لمحہ خواب نہیں ہوتا

اک عمر نمو کی خواہش میں موسم کے جبر سہے تو کھلا
ہر خوشبو عام نہیں ہوتی ہر پھول گلاب نہیں ہوتا

اس لمحۂ خیر و شر میں کہیں اک ساعت ایسی ہے جس میں
ہر بات گناہ نہیں ہوتی سب کارِ ثواب نہیں ہوتا

مرے چار طرف آوازیں اور دیواریں پھیل گئیں لیکن
کب تیری یاد نہیں آتی اور جی بے تاب نہیں ہوتا

یہاں منظر سے پس منظر تک حیرانی ہی حیرانی ہے
کبھی اصل کا بھید نہیں کھلتا کبھی سچّا خواب نہیں ہوتا

کبھی عشق کرو اور پھر دیکھو اس آگ میں جلتے رہنے سے
کبھی دل پر آنچ نہیں آتی کبھی رنگ خراب نہیں ہوتا

مری باتیں جیون سپنوں کی مرے شعر امانت نسلوں کی
میں شاہ کے گیت نہیں گاتا مجھ سے آداب نہیں ہوتا

سلیم کوثر


اور دوسری غزل جمال احسانی کی

غزل

کب پاؤں فگار نہیں ہوتے، کب سر پر دھول نہیں ہوتی
تری راہ میں چلنے والوں سے لیکن کبھی بھول نہیں ہوتی

سرِ کوچۂ عشق آ پہنچے ہو لیکن ذرا دھیان رہے کہ یہاں
کوئی نیکی کام نہیں آتی کوئی دعا قبول نہیں ہوتی

ہر چند اندیشۂ جاں ہے بہت لیکن اس کارِ محبت میں
کوئی پل بے کار نہیں جاتا، کوئی بات فضول نہیں ہوتی

ترے وصل کی آس بدلتے ہوئے ترے ہجر کی آگ میں جلتے ہوئے
کب دل مصروف نہیں رہتا، کب جاں مشغول نہیں ہوتی

ہر رنگِ جنوں بھرنے والو، شب بیداری کرنے والو
ہے عشق وہ مزدوری جس میں محنت بھی وصول نہیں ہوتی

جمال احسانی


اور یہ بحر کون سی ہے یہ تو وارث بھائی ہی بتا سکیں گے۔ :)
۔

5 تبصرے:

  1. بہت خوب جناب خیالی صاحب
    میرا مطبل احمد جی

    جواب دیںحذف کریں
  2. خوبصورت غزلیں ہیں احمد صاحب اور معذرت خواہ ہوں کہ بہت دیر کے بعد ان پر نظر پڑی۔

    یہ بحر فعلن آٹھ بار ہے لیکن کسی بھی ہجائے بلند کو ہجائے کوتاہ میں توڑا جا سکتا ہے یعنی فعلن فعلن کی جگہ فعل فعولن بھی آسکتا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. بہت شکریہ وارث بھائی!

    دیر آید درست آید۔۔۔۔۔۔ !

    جواب دیںحذف کریں
  4. اک عمر نمو کی خواہش میں موسم کے جبر سہے تو کھلا
    ہر خوشبو عام نہیں ہوتی ہر پھول گلاب نہیں ہوتا
    واہ۔ بہت خوبصورت کلام ہے۔ دونوں شعراء کا۔

    جواب دیںحذف کریں