جمال احسانی کی دو خوبصورت غزلیں




جو تو گیا تھا تو تیرا خیال رہ جاتا
ہمارا کوئی تو پُرسانِ حال رہ جاتا

بُرا تھا یا وہ بھلا، لمحۂ محبت تھا
وہیں پہ سلسلہ ماہ و سال رہ جاتا

بچھڑتے وقت ڈھلکتا نہ گر اُن آنکھو ں سے
اُس ایک اشک کا کیا کیا ملال رہ جاتا

تمام آئینہ خانے کی لاج رہ جاتی
کوئی بھی عکس اگر بے مثال رہ جاتا

گر امتحانِ جنوں میں نہ کرتے قیس کی نقل
جمالؔ سب سے ضروری سوال رہ جاتا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک فقیر چلا جاتا ہے پکّی سڑک پر گاؤں کی
آگے راہ کا سناٹا ہے پیچھے گونج کھڑاؤں کی

آنکھوں آنکھوں ہریالی کے خواب دکھائی دینےلگے
ہم ایسے کئی جاگنے والے نیند ہوئے صحراؤں کی

اپنے عکس کو چھونے کی خواہش میں پرندہ ڈوب گیا
پھر کبھی لوٹ کر آئی نہیں دریا پر گھڑی دعاؤں کی

ڈار سے بچھڑا ہوا کبوتر، شاخ سے ٹوٹا ہوا گلاب
آدھا دھوپ کا سرمایہ ہے، آدھی دولت چھاؤں کی

اُس رستے پر پیچھے سے اتنی آوازیں آئیں جمال
ایک جگہ تو گھوم کے رہ گئی ایڑی سیدھے پاؤں کی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جمال احسانی کی ستارۂ سفر سے انتخاب

4 تبصرے:

  1. واہ کیا خوبصورت غزلیں ہیں، بہت شکریہ احمد صاحب۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت شکریہ وارث صاحب اور جواد صاحب.

    ....

    جواب دیںحذف کریں
  3. اُس رستے پر پیچھے سے اتنی آوازیں آئیں جمال
    ایک جگہ تو گھوم کے رہ گئی ایڑی سیدھے پاؤں کی
    بہت خوب
    کیا کہنے ،،،،،

    جواب دیںحذف کریں