سنگ ہوا کے کھیل رچانا بھول گئے

غزل

سنگ ہوا کے کھیل رچانا بھول گئے
شام ڈھلی تو دیپ جلانا بھول گئے

دل آنگن میں دھوپ غموں کی کیا پھیلی
جگنو آنکھوں میں مسکانا بھول گئے

تعبیروں کی تعزیروں کا خوف رہا
وہ سمجھے ہم خواب سنانا بھول گئے

صدیاں جیسے لمحوں میں آ ٹھہری ہوں
لمحے جیسے آنا جانا بھول گئے

جب قحطِ اجناس ٹلا احساس ہوا
بستی والے پھول اُگانا بھول گئے

سِسکی سِسکی ہونٹوں کو مسکان کیا
پلکوں پلکوں باڑ لگانا بھول گئے

تیز ہوا کو خاک اُڑانا یاد رہا
بادل کیوں بارش برسانا بھول گئے

بے صبری یادیں رستے میں آن ملیں
ہم دیوانے گھر بھی جانا بھول گئے

بادِ صبا نے اور دریچے دیکھ لئے
ہم بھی احمدؔ گیت سہانا بھول گئے

محمد احمدؔ


7 تبصرے:

  1. کیا خوبصورت غزل کہی ہے احمد صاحب، لاجواب۔ جی خوش ہو گیا۔ اور یہ اشعار تو بہت پسند آئے

    تعبیروں کی تعزیروں کا خوف رہا
    وہ سمجھے ہم خواب سنانا بھول گئے

    بادِ صبا نے اور دریچے دیکھ لئے
    ہم بھی احمد گیت سہانا بھول گئے

    واہ واہ واہ

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت شکریہ وارث بھائی!

    یہ غزل زرا پہلے کی ہے سوچا بلاگ پر بھی پیش کردی جائے.

    جواب دیںحذف کریں
  3. تیز ہوا کو خاک اُڑانا یاد رہا
    بادل کیوں بارش برسانا بھول گئے

    کیا بات ہے

    جواب دیںحذف کریں
  4. بلال بھائی، بلاگ پر خوش آمدید ۔

    تبصرے اور پزیرائی کے لئے بے حد ممنون ہوں۔

    جواب دیںحذف کریں