ترا انتظار بھی اب نہیں

غزل

نہ ہوا نصیب قرارِ جاں، ہوسِ قرار بھی اب نہیں
ترا انتظار بہت کیا، ترا انتظار بھی اب نہیں

تجھے کیا خبر مہ و سال نے ہمیں کیسے زخم دیئے یہاں
تری یادگار تھی اک خلش، تری یادگار بھی اب نہیں

نہ گلے رہے نہ گماں رہے، نہ گزارشیں ہیں نہ گفتگو
وہ نشاطِ وعدہء وصل کیا، ہمیں اعتبار بھی اب نہیں

کسے نذر دیں دل و جاں بہم کہ نہیں وہ کاکُلِ خم بہ خم
کِسے ہر نفس کا حساب دیں کہ شمیمِ یار بھی اب نہیں

وہ ہجومِ دل زدگاں کہ تھا، تجھے مژدہ ہو کہ بکھر گیا
ترے آستانے کی خیر ہو، سرِ رہ غبار بھی اب نہیں

وہ جو اپنی جاں سے گزر گئے، انہیں کیا خبر ہے کہ شہر میں
کسی جاں نثار کا ذکر کیا، کوئی سوگوار بھی اب نہیں

نہیں اب تو اہلِ جنوں میں بھی، وہ جو شوق شہر میں عام تھا
وہ جو رنگ تھا کبھی کو بہ کو، سرِ کوئے یار بھی اب نہیں

جون ایلیا