پھر ترا وقتِ سفر یاد آیا



یہ کراچی کی مصروف ترین سڑک شاہراہِ فیصل ہے۔ شام کا وقت ہے اور دو طرفہ ٹریفک بھرپور انداز میں رواں دواں ہے۔ بس اسٹاپ پر کھڑےلوگ اپنی متوقع سواریوں کا انتظار کررہے ہیں ۔

بس اسٹاپ کے ساتھ ہی ٹریفک پولیس کے دو اہلکار بڑی مستعدی کے ساتھ ٹریفک کے نظم و نسق کا کام کررہے ہیں۔ اُن کی کوشش ہے کہ بسیں اسٹاپ سے بالکل لگ کر رکیں اور کوئی بھی شخص گاڑی کو سڑک کے عین درمیان میں روک کر سواریاں چڑھانے یا اُتارنے کی کوشش نہ کرے۔ غرض یہ کہ کسی بھی طرح ٹریفک کی روانی میں خلل واقع نہ ہو۔ ٹریفک کے ان اہلکار کو دیکھ کر ہرگز گمان نہیں ہوتا کہ یہ وہی سرکاری اہلکار ہیں جن سے فرض شناسی اور پیشہ ورانہ دیانت کی اُمید رکھنا بھی بے وقوفی سمجھی جاتی ہے۔

آج سڑک کے کنارےزرا زرا سے فاصلے پر رینجرز اور پولیس کے اہلکار بھی اسلحے سے لیس چاق و چوبند کھڑے ہیں۔ اچانک آنے والی سمت سے ٹریفک میں کمی کے آثار نظر آتے ہیں ، پھر اکا دکا گاڑیاں بھی غائب ہوجاتی ہیں۔ اب شاہراہِ فیصل پر حالتِ جنگ کا سا منظر نظر آرہا ہے۔ سڑک سنسنان ہے اور رینجرز کے اہلکار رائفل کی نوک سے اسٹاپ پر کھڑے عوام کو سڑک سے پرے سروس روڈ پر دھکیل رہے ہیں۔ کچھ لوگ دبے لفظوں میں قانون کے رکھوالوں سے تکرار بھی کر رہے ہیں لیکن اُنہیں اپنے فرائضِ منصبی کی بجا آوری کے علاوہ کچھ یاد نہیں کیونکہ آج عوام کے محبوب رہنما اس سڑک سے گزرنے والے ہیں ۔

ابھی ابھی ایک ٹریفک اہل کار جس کی موٹر سائیکل پر نیلے رنگ کی وارننگ لائٹ نصب ہے برق رفتاری کے ساتھ سڑک سے گزرا ہے ۔ یہ روڈ کلیرنس کی جانچ پڑتا ل کے لئے ہے۔ اب بے شمار گاڑیاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں اور اسلحے سے لیس گزر رہی ہیں انہی کے درمیان دو یا تین سیاہ مرسڈیز بھی ہیں۔ انہیں مہنگے ترین برانڈ کی گاڑیوں میں غریب عوام کے محبوب رہنما عوام کی دعائیں سمیٹتے گزرہے ہیں۔

شاہانہ سواریوں کے گزرجانے کے بعد سڑک کو پھر سے عام ٹریفک کے لئے کھول دیا گیا ہے۔ ٹریفک میں گھنٹوں پھنسے ہوئے لوگ پلک جھپکتے میں اپنی منزل پر پہنچنا چاہ رہے ہیں کچھ لوگوں نے جلدی کے چکر میں اپنی گاڑیاں ٹریفک میں آڑھی ٹیڑھی پھنسا دی ہیں۔ ٹریفک بُری طرح جام ہے لیکن ٹریفک پولیس کے فرض شناس اہلکاروں کا کہیں نام و نشان نہیں ہے۔


5 تبصرے:

  1. وہ جی جدید کربلا جارہے ہوں گے
    مرسیڈیزوں میں بیٹھ کے

    جواب دیںحذف کریں
  2. ميں شروع کی عبارت پڑھ کر حيران ہو رہا تھا کہ واقعی يہ کراچی کی بات ہو رہی ہے ۔ جلد ہی صورتِ حال واضح ہو گئی ۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. @ خاور کھوکھر صاحب،

    یہ سب کچھ ہے ہی اتنا تلخ کہ زبان کڑوی ہوہی جاتی ہے. جو لوگ عوام کی خدمت کے نام پر ووٹ لیتے ہیں وہ عوام کو تیسرے درجے کی مخلوق بھی نہیں سمجھتے. عوام سے محبت کرنے والے عوام سے اتنے زیادہ خوفزدہ رہتے ہیں کہ کوئی حد ہی نہیں ہے.

    @ جعفر بھائی
    :-)

    @ شازل
    جی بھائی یہ ہی حقیقت ہے اور بڑی تلخ ہے.

    @ افتخار اجمل
    جی افتخار صاحب، ایسا ہی ہمارے لوگوں میں کام کی اہلیت ہے لیکن یہ سب کچھ تب ہی ہوتا ہے جب حکومت کی اپنی مرضی ہوتی ہے.

    جواب دیںحذف کریں