وہ کہتے ہیں میں کتنا کم سخن ہوں

غزل

شکستہ پر ، شکستہ جان و تن ہوں
مگر پرواز میں اپنی مگن ہوں

خود اپنی دھوپ میں جلتا رہا ہوں
خود اپنی ذات پر سایہ فگن ہوں

میں دیواروں سے باتیں کر رہا ہوں
وہ کہتے ہیں میں کتنا کم سخن ہوں

وہ کب کا منزلوں کا ہو چکا ہے
میں جس کا منتظر ہوں خیمہ زن ہوں

بلا کی دھوپ نے چٹخا دیا ہے
میں جیسے کچی مٹی کا بدن ہوں

ستمگر ہو کہ بھی شکوہ کناں وہ
یہ میں ہوں کہ جبینِ بے شکن ہوں

یہ میں کیا ہو گیا ہوں تجھ سے مل کر
کہ خوشبو ہوں، ستارہ ہوں، پون ہوں

جنوں کی اک گرہ مجھ پر کھلی ہے
تو سرشاری کے خط پر گامزن ہوں

رہی ہجرت سدا منسوب مجھ سے
وطن میں ہو کے احمد بے وطن ہوں

محمد احمدؔ

7 تبصرے:

  1. بہت خوب، زبردست، کیا روانی ہے۔ ہر شعر بہت عمدہ ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت اچھی غزل ہے احمد صاحب، سبھی اشعار بہت اچھے ہیں، مطلع انتہائی جاندار اور حسین ہے۔ ایک بات جو میں ہمیشہ آپ کی شاعری کے متعلق دوسرے فورمز پر بھی کہتا ہوں کہ اس میں خیال آفرینی ہے، شعر برائے شعر نہیں ہیں، بلکہ آپ کی غزلوں میں خیال، کیف ، احساس، ابلاغ سبھی کچھ ہے سو اس غزل میں بھی ہے۔
    جو مصرعہ آپ نے عنوان میں لکھا، وہ شعر، واہ واہ واہ کیا خوبصورت بات ہے، بقولِ غالب، میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔
    جنون والے شعر میں، ‘پر‘ کی جگہ ‘پہ‘ شاید ٹائپنگ کی غلطی ہے۔
    بہت داد قبول کیجیے اس خوبصورت غزل کی تخلیق پر۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. بہت شکریہ ! عنیقہ ناز صاحبہ

    خوش رہیے!

    جواب دیںحذف کریں
  4. محترم وارث بھائی!

    آپ کی توجہ اور محبت کے لئے بے حد ممنون ہوں۔ غزل آپ کو پسند آئی میرے تو پیسے وصول ہو گئے۔ میں خود کو بہت خوش بخت سمجھتا ہوں کہ آپ ایسے سخن فہم کی توجہ اور محبت مجھے حاصل ہے اور یہی وہ چیز ہے جو مجھ ایسے ناکارہ میں بھی کچھ نہ کچھ کرنے کی لگن پیدا کرتی ہے۔ آپ کی ذرہ نوازی اور حسن ظن کے لئے بہت ممنون ہوں۔

    جنون والے شعر میں "پر" کی نشاندہی کا شکریہ!

    جواب دیںحذف کریں
  5. پہلے تو اتنے خوبصورت بلاگ کی مبارکباد اور اسکے بعد اتنی زبردست غزل کون کہتا ہے آپ کم سخن ہو ،اللہ زور قلم اور زیادہ

    جواب دیںحذف کریں
  6. بہت شکریہ جعفر صاحب!

    تانیہ رحمان صاحبہ، بلاگ پر خوش آمدید!

    بلاگ آپ کو اچھا لگا میری خوش قسمتی ہے. آپ کی رائے اور غزل کی پسندیدگی کے لئے ممنون ہوں.

    جواب دیںحذف کریں