اگرچہ وقت کے تیور کڑے تھے

غزل

اگرچہ وقت کے تیور کڑے تھے
مگر ہم زندگی سے کب لڑے تھے

فرارِ زیست ممکن ہی نہیں تھا
شجر کے پاؤں مٹی میں گڑے تھے

محبت بھی وہی، دنیا وہی تھی
وہی دریا، وہی کچے گھڑے تھے

وہ کب کا جا چکا تھا زندگی سے
مگر ہم بانہیں پھیلائے کھڑے تھے

اور اب تو موم سے بھی نرم ہیں ہم
کوئی دن تھے کہ ہم ضد پر اڑے تھے

رہا سر پر سلامت غم کا سورج
کم از کم اپنے سائے سے بڑے تھے

سراسیمہ سی کیوں تھی ساری بستی
بھنور تو دور دریا میں پڑے تھے

ملا وہ، کہہ رہا تھا خوش بہت ہوں
مگر آنکھوں تلے حلقے پڑے تھے

تو کیا تم نے ہمیں دھوکے میں رکھا
وفا بھی تھی یا افسانے گھڑے تھے

خزاں پہلے پہل آئی تھی اُس دن
وہ بچھڑا تو بہت پتے جھڑے تھے

وفا، مہر و مروت اور یہ دنیا
ہماری عقل پر پتھر پڑے تھے

شبِ فرقت ستارے تھے کہ آنسو
نگینے خلعتِ شب میں جڑے تھے

ہمیں احمد صبا نے پھر نہ دیکھا
کہ ہم برگِ خزاں آسا پڑے تھے

محمداحمد

8 تبصرے:

  1. کیا خوبصورت غزل ہے احمد صاحب، لاجواب۔ ایک ایک شعر کمال کا ہے، واہ واہ واہ

    جواب دیںحذف کریں
  2. فرار زیست ممکن ہی نہیں تھا
    شجر کے پاءووں مٹی میں گڑے تھے
    بہت اچھا، بہت خوب۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. بہت شکریہ وارث بھائی!

    ذرہ نوازی کے لئے ممنون ہوں.

    آپ کی محبت اور حوصلہ افزائی میرے لئے بے حد اہمیت کی حامل ہے.

    جواب دیںحذف کریں
  4. کیا خیال کی بلندی ہے!
    واہ ۔۔
    بہت عمدہ

    جواب دیںحذف کریں
  5. بہت ہی اچھی غزل ہے یہ والی تو۔
    اس کی زمین میں نے چرا لی ہے، یہاں اطلاعاََ عرض ہے تاکہ سند رہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  6. بلاگ پر خوش آمدید نمرہ صاحبہ۔۔۔۔!

    غزل آپ کو پسند آئی اس سے اچھی بات کیا ہو سکتی ہے ہمارے لئے۔ رہ بات زمین کی تو زمین تو اُسی کی ہوتی ہے جو اُسے آباد کرلے۔

    خوش رہیے۔

    جواب دیںحذف کریں